![cover image](https://wikiwandv2-19431.kxcdn.com/_next/image?url=https://upload.wikimedia.org/wikipedia/commons/thumb/8/81/Young_India%253B_an_interpretation_and_a_history_of_the_nationalist_movement_from_within_%25281916%2529_%252814781987942%2529.jpg/640px-Young_India%253B_an_interpretation_and_a_history_of_the_nationalist_movement_from_within_%25281916%2529_%252814781987942%2529.jpg&w=640&q=50)
بال گنگا دھر تلک
بھارتی مصنف / From Wikipedia, the free encyclopedia
بال گنگا دھر تِلک ایک ہندوستانی قوم پرست لیڈر تھے۔ اگرچہ پیدائشی برہمن تھے۔ مگر اس کی پرورش مہاراشٹر کے عام ماحول میں ہوئی۔ ان کے والد ایک مدرس تھے۔ جس نے ان کو مغربی تصورات سے آگاہ کیا۔ 10 سال کی عمر میں وہ پونا چلے گئے جو مرہٹہ قومیت کا مرکز تھا۔ تلک نے یہاں درس و تدریس کے ساتھ صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ اور اخبارات میں قومیت پر مضمون لکھنے شروع کیے۔ ہندوستان میں محمد علی جناح اور اینی بیسنٹ کے ساتھ انڈین ہوم رول لیگ قائم کی۔ تلک نے مکمل آزادی ’’سوراج‘‘ کا مطالبہ کیا۔ جب 1885ء میں آل انڈیا کانگریس وجود میں آئی تو اس میں انتہا پسند گروہ کے لیڈر بن گئے۔ انھوں نے کانگرس میں اعتدال پسند گروہ کے لیڈر مسٹر گوپال کرشن گوکھلے کی زبردست مخالفت کی اور کہا کہ انگریزوں کو بزور ملک سے نکال دینا چاہیے۔ 1897ء میں تلک کو گرفتار کرکے ڈیڑھ سال کی سزا دی گئی۔ 1907ء میں دونوں گروہوں میں زبردست چپقلش شروع ہوئی۔ انگریزوں نے تلک کو 6 سال کی سزا دی۔
بال گنگا دھر تلک | |
---|---|
![]() | |
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (انگریزی میں: Keshav Gangadhar Tilak) ![]() |
پیدائش | 23 جولائی 1856ء [1][2] ![]() رتناگری ![]() |
وفات | 1 ستمبر 1920ء (64 سال)[1][2] ![]() ممبئی [3] ![]() |
مقام نظر بندی | ماندالے (1908–16 جون 1914) ![]() |
شہریت | ![]() ![]() |
جماعت | انڈین نیشنل کانگریس ![]() |
عملی زندگی | |
مادر علمی | گورنمنٹ لا کالج، ممبئی الفنسٹن کالج ![]() |
پیشہ | سیاست دان ، فلسفی ، مصنف ، انقلابی ، حریت پسند ![]() |
پیشہ ورانہ زبان | مراٹھی [5]، انگریزی [6] ![]() |
![]() | |
درستی - ترمیم ![]() |
تلک ایک جید عالم اور بے باک صحافی تھے۔ انھوں نے تاریخ، ہند و مذہب، شنکر آچاریہ کے فلسفہ، تاریخ ماقبل راماین، شیواجی کی حیات، بودھی دور اور شک راجاؤں پر بھی لکھنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ "کیسری" میں ان کے مضامین جذبہ حب الوطنی کی شدت و خلوص اور خطیبانہ انداز کی پختگی کے آئینہ دار ہیں۔ وہ قاری کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے اور نپی تلی صاف اور غیر مبہم بات کہتے۔ ان کے خیالات کی بنیاد ہندو احیا پرستی اور کلاسیکی انداز فکر پر تھی۔ اس معاملے میں وہ اصلاح پسند گوپال گنیش اگرکر سے اختلاف کرتے تھے جن کی نظر مستقبل پر تھی۔ ان کی "گیتا رہسیہ" کا ترجمہ انگریزی کے علاوہ تقریباً ساری ہندوستانی زبانوں میں ملتا ہے۔ مراٹھی اور انگریزی میں ان کی سوانح عمریاں بھی موجود ہیں۔