’چتا‘ میں آگ کی نذر کرنے کی رسم From Wikipedia, the free encyclopedia
برصغیر میں انگریزوں کے دور تک ہندووَں میں رواج کسی شخص کے مرنے پر اس کی بیوی بھی اس کی چتا کے ساتھ جل جاتی تھی اور یہ رسمِ ستی کہلاتی تھی۔ یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ ستی کا کب رواج ہوا۔ ویدوں میں اس ستی کا ذکر نہیں ملتا ہے۔ اگرچہ بعض ہندووَں کا خیال ہے کہ رگ وید میں ستی کا جوالہ ہے۔ لیکن رگ وید میں بیوہ سے کہا گیا اٹھ اور دوسرا شوہر چن لے۔ یہ رسم کب سے جاری ہوئی اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا ہے۔ یونانیوں نے بھی ستی کا ذکر نہیں کیا ہے۔ البتہ مسلمان سیاحوں نے ستی کا ذکر کیا ہے۔ تاہم اندازہ ہے یہ رسم ساتویں صدی سے شروع ہوئی جب کہ راجپوتوں کا دور شروع ہوا۔ جمیز ٹاڈ کا کہنا ہے کہ یہ رسم راجپوت عورتوں میں اس لیے شروع ہوئی نہ انھیں فاتح کی لونڈیاں منظور نہیں تھا۔
ایک روایت کے مطابق مہابھارت کی جنگ میں کوروں کو شکست ہوئی اور وہ قتل ہوئے اور ان کا اندھا باپ دہرتراشتر نے راج پانڈووَں کے حوالے کیا اور خود اپنی بیوی کے ساتھ ہمالیہ چلاگیا اور وہاں آگ میں جل کر مرگیا۔ اس کے ساتھ اس کی بیوی بھی ساتھ جل گئی تھی۔ اس کے بعد عورتوں میں یہ رسم شروع ہوئی کہ شوہر کی موت کے بیوی یا بیویاں شوہر کی چتا میں ساتھ جلنے لگیں۔ اس لیے ہندووَں کے جن طبقات میں ستی کا دستور تھا وہاں عورتیں پوجا نہیں تھیں۔ ان کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھی ہوئی کہ وہ اپنے شوہروں کی اطاعت کریں اور اس موت پر اس کے ساتھ ہی چتا میں جل کر مر جانے ہماری نجات ہے۔ عورتوں کا یہ خیال تھا کہ ان کے ستی سے ان کے خاوند کی بھی نجات ہوجائے گی۔
ان کا خیال تھا کہ ستی ہونے والی عورت کو تائید غیبی حاصل ہوتا ہے اور مشہور تھا کہ یہ سب بھگوان کی طرف سے ہوتا ہے۔ ستی ہونے والی عورت سے ڈرتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ اس کی زبان سے جو نکلے گا وہ ضرور پورا ہوگا۔ اس لیے بھی وہ عورت کو ستی سے منع نہیں کرتے تھے۔
منو دھرم شاستر میں لکھا ہے کہ برہمن، چھتری، ویش اور شورد قوم کی عورتیں ستی کرسکتی ہیں۔ مگر جس عورت کا لڑکا چھوٹا ہو یا حاملہ اور حیض والی کو ستی نہ ہونا چاہیے اور منونے زبردستی ستی سے منع کیا ہے۔
ستی ہونے والی عورت سرخ رنگ کی پوشاک پہنتی تھی اور اس کا دلہن کی طرح سنگھار کیا جاتا تھا۔ اس خبر کو سن کر گرد و نواح سے لوگ تماشا دیکھنے آتے تھے اور ہزاروں کا ہجوم جمع ہو جاتا تھا۔ وہ عورت چتا کی طرف جاتے ہوئے بظاہر خوش خوش ناریل کو ہاتھ میں اچھالتے جاتی تھی۔ چتا میں روغن زرد (گھی) اور روئی ہوتی تھی۔ عورت اپنے شوہر کی لاش کے ساتھ لکڑیوں پر بیٹھ جاتی تھی اور اس کے اقربا لاش اور عورت کے گرد لکڑیاں چن کر اس کے اوپر روئی اور روغن اس کے اوپر ڈال دیتے تھے تاکہ آگ تیز ہو اور عورت اور لاش دونوں جلدی بھسم ہوجائے۔ اس عورت کی جو ستی کہلاتی تھی چند پشت تک خاندان کے لوگ پوجا کرتے تھے۔
ستی کے معنیٰ صادقہ کے ہیں اور رفتہ رفتہ یہ کلمہ ایسی عورت کو کہا جانے لگا جو شوہر کی وفادار ہو اور اس کے مرنے کے بعد اس کی لاش کے ساتھ ستی ہوجائے۔ ستی ہونا عورت کی پاکیزگی کا اعلیٰ معیار ہندووَں میں بن گیا تھا۔ اس کے قصے اور مثالیں عام تھیں اور سیتا اور ساوتری کہانیاں مشہور تھین۔ پرانوں کے قصوں میں دانستہ عورت کو ستی کرنے کی مثالیں ہیں۔ مگر پھر بھی اس رسم کا رواج معما ہے اور اس نے ہندوستان کی تاریخ کو دھندلا دیا ہے۔ ستی کا رواج ابتدا میں راجپوتوں کے علاوہ کسی اور قوم میں نہیں تھا۔ جو ان میں باہمی جنگ و جدل یا مسلمانوں کے حملے کی وجہ سے ہوا ہو۔ مگر انیسویں صدی کی ابتدا میں بعض ستی کی ایسی وارداتیں ان قوموں میں بھی ہوئیں جو کے کھتری یا راجپوت نہیں تھے اور جلد ہی یہ رواج ہندوستان کے شمالی صوبوں جن میں بنگال بھی شامل تھا عام ہو گیا۔ مگر ستی ہونے والی عورت کا ستی ہونے کا سبب صرف جوش یا وفاداری نہیں بلکہ اس میں اجتماعی اور جبر بھی کیا جاتا تھا۔ مادی ہوس اور مذہبی جنون دونوں مل کر ان بے بس عورتوں اپنا شکار بناتے اور انھیں بے رحمی سے جلا دیتے تھے۔ یہ رواج انسانیت کے برخلاف وحشیانہ انسانی قربانی کا ایک نفرت انگیز پہلو تھا۔
کسی عورت کو ستی ہوتے ہوئے دیکھنا طبعیت پر سخت گراں گزرتا ہے اور دیکھنے والوں کے دل پر گہرا صدمہ کے ساتھ ستی ہونے والی عورت کی عظمت، استقلال اور تحمل پر حیرت ہوتی تھی۔ ستی سے پہلے عورت اپنی ذاتی اشیاء اپنے عزیزوں تقسیم کرنے اور لوگوں سے الوداعی سلام و دعا اور اس کی تعظم و احترام کرنے کا منظر۔ ستی ہونے والی عورت کا طرار پن دیکھ کر دیکھنے والوں کی عجیب حالت ہوجاتی تھی کہ ایک نرم مزاج عورت ایک فرسودہ رسم کی بدولت اپنی جان جس طرح دیتی تھی اس سے بڑے بڑے حب الوطن لڑائیوں میں مرنے والے بھی اس کے آگے ہیچ ہیں۔
انگریزوں کا کہنا ہے کہ شوہر کی موت کے بعد بیوہ کو جو ذلت آمیز زندگی گزانی پڑتی تھی اسی لیے بھی عورتیں ستی ہونا پسند کرتی تھیں۔ عورتوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھائی جاتی تھی کہ ان کے ستی ہونے سے شوہر کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور وہ سرگ میں شوہر کے ساتھ عیش و عشرت کی زندگی گزارے گی۔ وہ اسی امید پر کہ اسے اور اس کے شوہر کو سرگ کی لذتین عیش و آرام نصیب ہوں گے خوشی خوشی جل جاتی تھی۔ بنگال میں ایک ستی کے موقع پر ایک عورت ڈر کر بھاگی تو لوگ پکڑ کر چتا میں ڈالنے لگے تو ایک انگریز نے اس عورت کو دوبارہ چتا میں نہیں ڈالنے دیا اور اس کی جان بچ گئی۔ لیکن دوسرے دن اس عورت نے آکر اس انگریز سخت برا بھلا کہا کہ تم نے مجھے ذلیل کر دیا۔ اگر جل جانے دیا ہوتا تو آج بیکٹھ (جنت) میں شوہر کے ساتھ عیش کر رہی ہوتی۔ اب میرے لواحقین مجھے برا بھلا اور بدعائیں دیتے ہیں۔ مشہور یہ بھی تھا کہ مرنے والے کے رشتہ دار اس کی بیوی کو ستی ہونے کے لیے اس لیے بھی مجبور کرتے تھے کہ مرنے والے کی مال اور دولت ان کے ہاتھ لگ جائے۔ مگر ہندو مذہب میں عورت کو اس طرح کا استقاق نہیں ہے کہ وہ مال و دولت اپنے پاس رکھے یا آزادانہ زندگی بسر کرے۔ منو کے قانون کے مطابق عورت شادی سے پہلے باپ و بھائیوں اور شادی کے بعد شوہر اور بیٹوں کی محتاج ہوتی ہے۔ اگرچہ بہت سی عورتیں شوہر سے محبت کے اظہار میں جوش و جذبات میں ستی ہوتی تھیں۔
اگر متوفی کی کئی بیویاں ہوں تو عمر جو بڑی ہو اسے ستی ہونے کا پہلا حق ہوتا تھا۔ اس طرح حاملہ عورت بچے کی پیدائش کے ہونے کے بعد بھی ستی کرلیتی تھی۔ بہت سی عورتیں ستی کے راضی نہیں بھی ہوتی ہیں اور انھیں زبردستی ستی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے بیٹے کھرک سنگھ کی موت کے بعد اس کی بیوہ ایسر کور نے ستی ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ مگر راجا دہیان سنگھ سے اسے زبردستی کھرک سنگھ کی چتا کے ساتھ جلا دیا۔
ستی ہونے کا دستور پورے ہندوستان میں نہیں تھا۔ جنوب میں دریائے کشنا کی جنوبی جانب عورتیں ستی نہیں ہوتی تھیں۔ دکن، گجرات، بمبئی، سندھ اور پنجاب میں ستی ہونے والوں کی تعداد کم ہوتی تھی۔ مگر وسط ہند، مشرقی ہند، راجپوتانہ اور بنگال میں یہ رسم عام تھی اور انگریزوں نے اس کی سیکڑوں تعداد رپوٹ کیں ہیں۔ 1829ء میں پابندی کے قانوں سے پہلے صرف بنگال میں سات سو عورتیں ستی ہوئی تھیں۔
ہندووَں میں ستی کی رسم صرف اعلیٰ گھرانوں یا یہ صرف راجپوتوں میں راءج تھی۔ دوسری ذاتوں میں اس کا رواج نہیں تھا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہندووَں میں ایک دم یہ رسم راءج ہو گئی اور کلکتہ کے گرد و نواح میں یہ ستی عام ہو گئی۔ ستی ہونا عورت کی مرضی پر موقوف نہ رہا بلکہ اس میں جبر بھی شامل ہو گیا تھا۔ ڈنکن فوربس 1813ء میں لکھتا ہے کہ پچاس سال کے دوران میں کوئی عورت ستی نہیں ہوئی تھی۔ لیکن کلکتہ اور اس کے گرد و نواح میں سیتی کے واقعات عام ہو گئے تھے اور اس نے رفتہ رفتہ اس نے اس رسم پابندی لگانے کا کہا۔ یعنی اب برطانوی حکومت ان کے رواج کی بجائے اختیارات استعمال کرے۔ کیوں کہ بنگال میں ستی دن بدن ترقی کر رہی تھی۔
ستی ہونے کے ہر علاقہ میں مختلف طریقے راءج تھے۔ مثلاً بنگال میں بیوہ کو مردے کے ساتھ چتا میں رسیوں اور بانسوں سے باندھ دیا جاتا تھا کہ عورت اٹھ کر بھاگ نہ سکے اور پھر چتا کو آگ لگا دی جاتی تھی۔ اوڑیسہ میں ایک گڈھا کھود کر اس میں مردے کو آگ دیکھاتے تھے اور جب شعلے بلند ہوتے تو اس کی بیوہ اس میں کود پڑتی تھی یا دھکا دے دیا جاتا تھا۔ دکن میں ستی کا دستور اس طرح تھا کہ چتا میں عورت مردہ شوہر کا سر زانو پر لے بیٹھ جاتی تھی اور چتا کے چاروں طرف لکڑیاں لگا اوپر چھت بناکر اندر مردے اور عورت کے پاس لکڑیاں چن دی جاتی تھیں اور چتا کی چھت کو آگ لگا دی جاتی تھی۔ عورت یا تو دھویں سے دم گھٹنے سے مرجاتی تھی یا چتا کی چھت اس پر گر جاتی تھی۔
ستی ہونے والی عورتیں عموماً ستی کے لیے مختلف رسومات برد باری اور صبر و استقلال سے ادا کرتی تھیں کہ ظاہر نہیں ہوتا تھا کہ وہ موت کو گلے لگا رہی ہیں۔ اکثر یہ دیکھا گیا ستی ہونے والی عورت شعلوں کے درمیان میں سر کو جھکا کر دونوں ہاتھ جوڑ کر دعائیں مانگتی مانگی جل گئی۔ یہ بھی ہوتا تھا کہ چتا کو آگ دکھائی تو عورت ڈر کر بھاگی اور لوگوں نے اسے پکڑ کر دوبارہ چتا میں ڈلا اور اس کے اوپر لکڑی کے بھاری تنے دال دیے کہ وہ دوبارہ نکل نہیں سے۔ بعض اوقات یا بعض مقامات پر ستی ہونے والی عورتوں کو نشہ آور دے دی جاتی تھی کہ وہ کہ انھیں ہوش نہ رہے۔ مثلاً گجرات میں ستی ہونے والی عورتیں کو عموماً افین کھلادی جاتی تھی جس سے وہ مدہوش ہوجاتی تھیں۔
برنیر عہد اورنگ زیب میں لکھتا ہے کہ میں نے چند ایسی بدنصیف بیواؤں کو دیکھا تھا جو چتا کی شکل دیکھتے کر بھاگتی تھیں۔ ان کو دیکھ کر مجھے یقین تھا کہ اگر یہ ظالم اور بے درد برہمن انھیں ستی سے منع کریں تو یہ خوشی خوشی رک جائیں گیں۔ مگر یہ ان خوف زدہ اور اجل گرفتہ عورتوں کو ستی کی ترغیبیں اور بڑھاوے دیتے رہے اور جب انھوں نے مزاحمت کی تو زبردستی انھیں آگ میں ڈال دیا کرتے تھے۔ میرے سامنے ایک غریب جوان عورت اس طرح زبردستی آگ میں ڈال دی گئی تھی۔ اس طرح میں نے ایک اور بدنصیب عورت کو دیکھا کہ اس کے اردگرد جب آگ بھرکنے لگی تو اس نے بھاگنا چاہا مگر ان جلاد صفتوں انھیں لمبے لمبے بانسوں سے دبا دیا کہ وہ نکل نہیں نہ سکیں۔
لیڈی اہمرسٹ نے اکتوبر 1825ء میں ایک دلخراش واقعہ کو اپنے روزنامچہ میں درج کیا ہے کہ ایک نوجوان ہیضے سے مر گیا اور اس کی بیوہ نے اس کے ساتھ چٹا پر جلنے کا ارادہ کر لیا۔ ضروری تیاریاں ہوگئیں اور مجسٹریٹ سے اجازت نامہ حاصل کر لیا گیا۔ چتا کو متوفی کے رشتہ داروں نے آگ لگادی۔ آگ کے شعلے جب بیوہ تک پہنچے تو اس کا حوصلہ جواب دے گیا اور وہ دھویں کے بادلوں، ہجوم کی چیخ پکار اور ڈھول نقاروں کی سمع خراش شور و غوغا کے درمیان میں کسی نہ کسی طرح لوگوں کی نظر بچا کر جنگل میں جاپہنچی اور کسی کی نظر پر نہ پڑی۔ پہلے تو کسی نے توجہ نہ دی لیکن دھواں کم ہوا تو چتا میں عورت نظر نہیں آئی۔ اس پر لوگ غصہ میں آگئے اور بدنصیب لڑکی جنگل ملی اور اس بدنصیب لڑکی کو ایک ڈنگی میں بیٹھا کر دریا میں لے گئے اور بیچ منجھدار لڑکی کو دریا میں پھینک دیا اور جب وہ لڑکی اوپر آئی تو چپو سے اسے سر پر وار کیے جس سے وہ دریا میں ڈوب گئی۔
برنیر یہ بھی لکھتا ہے ہندوستان کے بعض حصوں مں تو یہ غضب ڈھاتے ہیں کہ جلا کر ستی کرنے کی بجائے عورت کو گردن تک زمین میں گاڑ دیتے ہیں اور دو تین برہمن یکایک اس کی منڈیا مروڑ دیتے ہیں اور جب اس کا دم نکل جاتا ہے تو مٹی کی ٹوکریاں ڈال کر پاؤں سے دبادیتے ہیں۔ اس کا ثبوت 1829ء کے ایکٹ 17 میں امنتاع ستی سے بھی ملتا ہے۔
وہ عورتیں جو ستی سے کسی طرح بچ نکلتی تھیں ان کی آئندہ زندگی بہت درد بھری گزرتی تھی۔ ایک اور انگریز نے لکھا کہ میرے پاس ایک حسین عورت جس نے بھنگیوں کی مدد سے اپنی جان بچائی تھی۔ ان بھنگیوں کا دستور تھا جب انھیں پتہ چلتا کہ کوئی عورت ستی ہونے والی ہے اور اس کے گھر صاحب حثیت اور بآثر نہیں ہیں تو وہاں پہنچ جاتے اور اگر عورت ستی نہیں ہونا چاہتی تو یہ لوگ اسے نکال لاتے تھے۔ لیکن ان عورتوں کو پسند نہیں کیا جاتا تھا اور گھر والے بھی قطع تعلق کرلیتے تھے اس نے دھرم پر کلنک کا ٹیکا لگادیا ہے۔ اس لیے وہ اپنی بقایا زندگی بھگیوں کے ساتھ رہتی اور ان کی بدسلوکیاں سہہ کر زندگی کے دن پورے کرتی۔
مسلمان حکمرانوں نے اپنے دور حکومت میں اس رسم کو ختم کرنے کی کوشش کی تو ہندووَں نے احتجاج کیا کہ یہ رسم وید کے حکم پر ہے اور اسے بند کرنا ہمارے مذہب میں دخل اندازی ہے۔ اکبر نے اسے ختم کرنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوا اور اس نے حکم دیا تھا کہ کسی عورت کو زبردستی ستی نہیں کیا جائے۔
اکبر نے ستی کی رسم کو روکنے کی انتہائی کوشش کی اور بار بار حکم نامے جاری کیے۔ ستی کی اطلاع ملی تو خود ہی روکنے کے لیے پہنچ گیا۔ چنانچہ راجا جے مل کی بیوی کو ستی ہونے سے بچانا اکبر کا ہی کارنامہ تھا۔ اکبر کا کہنا تھا کہ یہ رسم قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد کب تک وہ تنہا زندگی بسر کرسکتی ہے۔ لہذا وہ اپنے آپ کو آگ میں جلادیتی تھی۔ اور اس بیش قیمت جان کو وہ کشادہ پیشانی کے ساتھ دے دیتی تھی۔ اور عورت اس کو اپنے شوہر کا سرمایہ نجات جانتی تھی۔ مجھ کو مردوں کی ہمت پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ عورت کے وسیلہ پر اپنی رہائی کے طالب ہوتے ہیں۔ مسلمان حکمرانوں نے ستی رواج کو روا رکھا تھا۔ گو کم از ایک موقع پر اکبر نے خود مداخلت کرکے اس مہلک رسم کو روک دیا تھا۔
ایک طویل عرضہ تک انگریز بھی متفرر تھے مگر وہ چاہتے تھے کہ ستی کی رسم کو ختم مرضی اور رضا و رغبت سے ہونا چاہیے اور انھوں نے ناپسندید کرنے کے علاوہ کسی اور کارروائی کو مناسب نہیں سمجھا۔ لارڈ ہسٹگر کو خطرہ تھا اس کی قانونی بندش سے برطانوی حکومت ہند خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اس لیے اس نے کوئی کارروائی نہہیں کی۔ البتہ اس نے لارڈ بنٹنک کو لکھ کر ستی کی بندش کی تائید کی۔ لارڈ امہرسٹ نے بہت غور فکر کے بعد اس رسم ناپسند کرنے کے باوجود قانوناً بندش کا حامی نہیں تھا۔ اس نے 1827ء میں لکھا کہ میں کسی ایسے قانون کی سفارش نہیں کرتا ہوں جو ستی کو بالکل ممنوع قرار دے۔ اگرچہ میں نہیں جانتا کہ ہر سال معقول رقم تعلیم پر خرچ ہو رہی ہے اور اس کے باوجود بیواؤں کو زندہ جلانے یا دفن کرنے کی رسم کب تک جاری رہے گی۔
28 مارج 1827ء کو ایوان ہند میں ایک رکن پونیڈر نے ہندو بیواؤں کے ستی ہونے کے خلاف تجویز پر بحث کے دوران یہ ایک واقع کو پیش کیا۔
ایک برہمن سیتھوکسی اور علاقہ میں مرگیا۔ دو ہفتے کے بعد اس کی اطلاع گھر والوں کو ملی۔ انھوں نے اس کی بیوہ ہوملیا جس کی عمر تقریباً چودہ سال تھی ستی کرنے کا فیصلہ کر دیا۔ اس کی چتا گاؤں میں موجود اس قریبی ترین رشتہ داروں نے تیار کی۔ لڑکی کے باپ پٹنا تیواری جو کسی اور علاقہ میں رہتا تھا اسے بھی اطلاع نہیں دی گئی۔ یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ ہومولیا ستی کے لیے راضی تھی یا نہیں۔ لیکن ہم یہ فرض کر لیں کہ وہ راضا تھی۔
ابتدائی رسوم کے بعد ہومولیا چتا پر بیٹھ گئی اور اس کے چچا شیو لعل نے چتا آگ لگادی۔ مگر آگ کی تپش ہومولیا کو ناقابل برداشت ہو گئی اور وہ چتا سے باہر نکل۔ لیکن شیو لعل، بیھوک اور دوسرے لوگوں نے اسے پکڑ کر دوبارہ چتا میں پھنیک دیا۔ مگر وہ پھر باہر نکل گئی اور اس کے کپڑے بھی جل اور قریبی باوَلی میں پانی میں لیٹ گئی۔ شیو لعل نے ایک چادر اس کے قریب زمین پر پھیلادی اور ہومولیا کو اس پر بیٹھنے کے لیے کہا۔ ہومولیا نے انکار کر دیا اور کہا نہیں میں نہیں بیٹھوں گ تم پھر مجھے آگ میں ڈال دو گے۔ مجھے چھوڑ دو میں تمھارا گھر چھوڑ دوں گی اور بھیگ مانگ کر یا کسی اور طرح زندگی بسر کروں گی۔ تم لوگ بس مجھ پر رحم کرو۔ شیوک لال نے گنگا کی قسم کھا کر کہا تم اگر چادر پر بیٹھ گئی تو میں تمھیں گھر پہنچا دوں گا۔ ہومولیا چادر پر بیٹھ گئی ان لوگوں نے اسے چادر میں باندھ دیا اور ایک بانس منگوا کر ایک گانٹھ کے ذریعہ اس میں سے بانس گزار کر اس پوٹلی کو شعلوں میں پھنیک دیا۔ چادر آگ کی شدت سے فوراً جل گئی اور بدقسمت لڑکی نے اپنے کو بچانے کی ایک بار پھر کوشش کی۔ اس اثنا میں باقی لوگوں کے اکسانے پر ایک مسلمان نے اپنے تلوار سے اس کا سر قلم کر دیا۔ وہ گر پڑی اور موت کی مزید کشمکش سے اسے نجات مل گئی۔
لارڈ بنٹنک کو ستی کی رسم روکنے میں مقامی لوگوں جن میں سر فہرست رام موہن رائے سے بھی مدد ملی۔ موہن رائے نے اپنے بھائی کی بیوہ کو ستی ہونے سے روکنے کی بہت کوشش کی۔ اس عورت نے پہلے تو اس کی پروا نہیں کی۔ مگر جب شعلوں سے تکلیف محسوس ہوئی تو اس نے چتا سے نکلنے کی کوشش کی تو اس کے رشتہ داروں اور پجاریوں نے اسے بانسوں سے دبا کر اسے نکلنے نہیں دیا۔ پتیلی باجے زور زور سے بجائے گئے تاکہ اس کی چیخوں کی آوازیں سنائیں نہ دیں۔ رام موہن مجبور اور بے بس ہو گئے اور انھوں نے عہد کیا کہ وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک اس ظالمانہ رسم کی بیچ کنی نہ ہوجائے۔ اس کے بعد انہون نے اخباروں اور عام جلسوں میں اس قبیح رسم کی مذمت کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ رام موہن رائے نے ہمت اور جرت سے کام لے کر اس کی مخالفت میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ 1818ء میں جب کلکتہ کے ہندووَں نے برطانوی حکومت کو ایک یاداشت پیش کی۔ جس میں ستی کو روکنے کے لیے جو کوششیں ہو رہی تھیں اس کے خلاف احتجاج کیا گیا۔
اس کے جواب میں رام ہوہن رائے نے ایک یاداشت پیش کی۔ جس میں برطانوی احکام کی کوششوں کی تائید کی کہ وہ انسانی ہمدردی سے کام لے رہی ہے۔ اس یاداشت میں رام ہوہن نے ستی کے بعض مناظر کو آگاہ کیا گیا اور بتایا کہ ان کا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ان عورتوں کی موت کے خواہاں اس کے وارث ہوتے ہیں اور ترغیب دے انھیں اپنے شوہروں کے ساتھ ستی کے لیے آمادہ کرتے ہیں۔ جو عورتوں نے اس سے انکار کیا اسے جبرا چتا میں ڈھکیل کر انھیں رسیوں سے باندھ کر بانسوں سے اس وقت تک دبائے رکھا جاتا ہے جب تک وہ مر نہ جائیں۔ بعض عورتیں جو کسی طرح بچ نکلیں انھیں ان کے رشتہ داروں نے کسی اور طریقے مار ڈالا۔ درخواست گزاروں کی عاجزانہ التماس ہے کہ مذکورہ مثالیں تمام شاستروں کی رو سے اور اقوام کے فہم کے لحاظ سے قتل ہیں۔
رام موہن رائے اپنے کو خطرے میں ڈال کر کلکتہ کے مرگھٹ پر جاتے اور ستی کو روکنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ 1829ء میں لارڈ بنٹنک نے ان سے مشورہ کیا تو انھوں مختلف شاستروں کے مستند اقتباسات سے یہ ثابت کیا کہ ستی مذہبی فریضہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ستی کی واداتوں میں اضافہ مذہبی اعتقاد نہیں بلکہ رشتہ داروں بیوہ کے اخراجات برداشت نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ لہذا اس رسم پر پابندی سے مذہب کو خطرہ نہیں ہے۔ جس کی ضمانت کا برطانیہ نے عہد کیا ہوا ہے۔
مگر لارڈ بنٹنک نے اخلاقی جرت کا مظاہر کے ستی کے قانون کو نافذ کیا۔ اس پہلے اپنے ساتھی سر چارلس جو بعد میں لارڈ مٹکاف کہلایا سے مشورہ کیا۔ لارڈ ولیم بنٹنک کو اندازہ ہو گیا کہ ستی کے انسداد کے لیے علم کی تددیحی ترقی سے امید نہیں تھی۔ اسے معلوم ہوا ستی کے واقعات زیادہ تر کلکتہ کے قرب و جوار کے اضلاع میں پیش آتے ہیں۔ یہاں کے باشندے معمولی سا احتجاج کریں گے۔ تاہم اس نے احتیاطاً احتیاطی تداویز بھی اختیار کیں کہ فوج میں اس کے خلاف رد عمل نہ ہو۔ اس نے اس کے لیے مکمل صلاح و مشورہ بھی کیا اور اس کے بعد ستی کے استعداد کے قانون کو نافذ کر دیا۔ اور اس کے نفاذ کے ساتھ ہی کمپنی کے علاقہ میں ستی کا خاتمہ ہو گیا۔ اس بھی زیادہ اطمینعان بخش صورت حال یہ ہوئی کہ دیسی ریاستوں نے اپنی رضا و رغبت سے اس قانون کی تقلید کی اور اپنے علاقوں میں ستی کو ممنوع قرار دیا گیا۔
ہند کی برطانوی کا موقف تھا وہ برصغیر آہستہ آہستہ اصلاحات کی طرف توجہ دے۔ اس لیے انھوں نے دھرم شاستر یا شرح اسلام کی تبدیلی کی طرف توجہ نہیں دی اور حتیٰ الامکان ملک کے قوانین اور رسوم کا احترام کیا، مذہبی معاملات میں کاملات رواداری سے کام لیا۔ لیکن بعض امور ایسے تھے جس میں اپنی عدم مداخلت کو روکنا دشوار تھا۔ ان میں ایک اہم اور مشکل مسلہ ستی کا بھی تھی۔ جو ہندو مہب سے تعلق رکھتا تھا۔
معلوم ہوتا ہے کہ لارڈ ایمہرسٹ کے جانشین لارڈ ولیم بیلٹک کے دل پر خاص اثر کیا اور انھوں نے پوری احتیاط سے تحقیقات کرکے متعلقہ جماعت کی رائے معلوم کی۔ بنگال میں خفیہ تحقیقات سے معلوم ہوا کے ستی کے انسداد سے فوج میں بغاوت کا خطرہ محض خیام خیالی ہے۔ راجا رام موہن ایسے روشن خیال ہندووَں کے خیال میں ستی کی ممانعت ہندو عقائد کے رو سے ہندو دھرم کے نہ تھی۔ لیکن انھیں مجوزہ قانوں سے خطرہ پیدا ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوجانے کا احتمال تھا، نظامت عدالت کے ججوں کی رائے میں اس رسم کا انسداد ضروری تھا۔ مخالفت میں سب سے آگے ہنری ہوریس ولسن جیسے مستشرق تھے۔ جو مذہبی رسوم کے مخالف میں تاویلات کی کوئی گنجائش نہیں سمجھتے تھے اور کہتے تھے ملک میں عام بے چینی کا پیدا ہوجانے کا خطرہ ہے۔
وہ ستی کے بارے میں لکھتا ہے کہ ستی کو روکنے یا اسے جاری رکھنے دونوں میں خدشات تھے۔ اگر یہ رسم جاری رہتی تو ہر سال سینکڑوں بے گناہ جانوں کو کی موت پر رضامندی کا اظہار تھا اور پابندی صورت میں خطرہ برطانیوی سلطنت کی سلامتی کو خطرہ تھا۔ مگر کوئی مہذب حکومت اس انسانیت سوز رسم برداشت نہیں کر سکتی ہے جو مذہب و انسانیت نہایت خطرناک شکل تھی۔ ہر دن کی تاخیر سے انسانی قتلوں کی تعداد میں خوفناک اضافہ ہے اور اس کی روک تھام انتہائی اہم ہے۔ میں خدا سے مدد کی دعا کرتے ہوئے ان وجوہ کو بیان کروں گا جس پر میری رائے قائم ہوئی ہے۔
میرے سامنے 1827ء و 1828ء میں ستی کے واقعات ہیں۔ سال 1827ء کے مقابلے میں 54 واقعات کم ہوئے ہیں اور گذشتہ سالوں کے مقابلے یہ بہت زیادہ کم ہیں۔ لیکن اس کمی کو تہذیب یا تعلیم کی ترقی کا سبب کہا جائے تو خاصہ اطمنان بخش ہوگا اور اصلاح کا ست رفتار عمل میں دخل دینا خلاف عقل و مصلحت ہوگا۔ لیکن میں یقین کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ کلکتہ میں شاید اعلیٰ طبقوں یہ اثر ابداز ہوئی لیکن عام آبادی میں کسی قسم کی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے اور اس رسم کو بند ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔
رام موہن رائے کے خیالات میں صداقت ہے لیکن ان سے نتاءج سے اتفاق نہ کرتا ہوں۔ فورٹ ولیم کے زیر حکومت علاقہ میں ستی جو 462 واقعات ہوئے ان میں سے 420 بنگال، بہار اور اوڑیسہ میں ہوئے۔ ان میں سے 287 صرف ضلع کلکتہ میں ہوئے۔ ضلع کلکتہ جس کی آباد لاکھوں افراد پر مشتمل ہے اور یہی صورت حال بنگال بہار اور اوڑیسہ میں بھی تھی۔ جہاں اخلاقی جرت اور قوت کی قدر کمی ہے اور حکومت کے خلاف بغاوت یا مخالفانہ مقابلہ کا خطرہ نہیں ہے۔ اس کی بجائے اگر ستی کے واقعات نشیبی واقعات بالائی علاقوں میں پیش ہوتا جہاں کے لوگ دلیر و بہادر ہیں تو میں اس بارے میں زیادہ اظہار خیال نہیں کرتا۔ ان علاقوں کی آبادی تقریباً دو کروڑ ہے اور ستی کی وارداتیں صرف 43 ہوئیں۔ اس لیے توقع ہے اس رسم پر پابندی سے کو مسلہ پیدا نہیں ہوگا۔ کیوں کہ یہاں ستی کی رسم بہت کم اور اکثر و بشتر ذاتی مفاد کے مد نظر ہوتی ہے۔ میں اس مسلے پر غور و فکر اور صلاح مشورے کے ساتھ اپنے احساسات و جذبات کو دخل دیے بغیر اور تمام مشکلات و اعتراضات کی اہمیت کو ملحوظ رکھا ہے اور واقعات کو صدق و غیر جانب داری کے ساتھ بیان کیا ہے اور اس نتیجے پر میں پہنچا ہوں اس ستی پر پابندی کی تائید استدلال و اسناد سے ہوتی ہے۔
ان اعلیٰ خیالات سے قطع نظر اپنی حکومت جس میں ایک عضو ہوں ستی کے جاری رکھنے سے برطانوی حکومت کے دامن پر ایک بدنما داغ لگ جائے گا اور اس پر پابندی سے خطرناک نفس پرستی، نا انصافی اور انسانی قربانی رک جائے گی۔ آخر میں عام نظم و نسق سلطنت برطانیہ کے طرز عمل اس تقلید پر مبنی ہے جو برطانوی حکومت نے رہنمائی کے لیے انگلستان میں قائم ہے کرے اور انھیں اعلیٰ و ارفع اصول کو جب ممکن ہو ہندوستان کی کثیر آبادی کے حالات پر منطبق کرنے سے انگلستان کی عام خوش حالی کو ترقی اور قوم کے کردار کو بلندی نصیب ہو سکتی ہے۔
مورخہ 8 نومبر 1829
ولیم بنٹنک
گورنر جنرل کی صدارت میں 4 دسمبر 1829ء کو ستی کو خلاف قانون قرار دیا گیا۔ اس میں ستی یا بیواؤں کو جلانے یا زندہ دفن کرنے رواج ناجائز اور عدالت فوجداری سے قابل سز قرار دیا گیا۔ سے بیوہ کو جلانا یا زندہ دفن کرنا (یعنی سیتی کی ہر صورت) خلاف قانون اور فوجداری عدالتوں میں قبال سزا قرار دے دیا گیا۔
1829ء ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس رسم کے خلاف قانون کا اجزا کیا جس میں سختی سے اس رسم روکنے کا حکم دیا۔ شروع میں لوگوں نے چھپ کر ستی کے کچھ واقعات ہوئے۔ مگر برطانوی حکومت نے سختی سے اس رسم میں مددگاروں کو سخت اور کڑی پر سخت سزائیں دیں گئیں۔ یہاں تک اس رسم کا صدباب ہو گیا۔ لیکن انگریزی علاقوں میں یہ رسم ختم ہو گئی مگر دیسی ریاستوں میں بدستور جاری رہی۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کی 1839ء میں ارٹھی پر اس کی ایک بیوی مہتاب دیوی اور تین لونڈیاں ستی ہوئیں تھیں۔ مگر اس کے بعد انگریز حکومت نے دیسی ریاستوں میں بھی ستی کی رسم ختم کرنے کا حکم جاری کیا اور آخری ستی پنجاب میں 1845ء میں ہوئی تھی۔ آج جب کہ ہندووَں میں یہ رسم ختم ہو چکی ہے اور وہ اعتراف کرتے ہیں کہ یہ بہیمانہ اور وحشانہ رسم تھی۔
راجگان پنجاب۔ سر جارج گریفن
تاریخ راجستان۔ جمیز ٹاڈ
تاریخ جرم و سزا۔ امداد صابری
برطانوی عہد حکومت۔ مولوی ذکاء اللہ
تاریخ جرم و سزا۔ امداد صابری
برطانوی حکومت ہند۔ انڈیسن
ہند کے سیاسی مسلک کی نشو و نما۔ جے انڈریسن، جے صوبہ دار
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.