From Wikipedia, the free encyclopedia
ریشم(انگریزی میں:silk) پروٹین کے قدرتی ریشوں سے مل کر بنتا ہے، جس کی کچھ اقسام کو بُن کر کپڑا بنایا جا سکتا ہے۔ سب سے اعلْی قسم کاریشم شھتوت کے پتوں پر رہنے والے لارواbombyx mori کا ہوتا جنہیں تجارتی مقاصد کے لیے پالا جاتا ہے۔ ریشم کی خوبصورتی اور چمک اس کے ریشوں کی تکون مخروطِ مستوی (پرزم) نما ساخت کی وجہ سے ہوتی ہے جو روشنی کو مختلف زاویوں پر منتشر کر دیتی ہیں۔
ریشم کی شھتوت کے علاوہ بہت سی خودرو اقسام بھی ہیں مگر انھیں مصنوعی طور پر نہیں پالا جاتا۔ ایسی چند اقسام چین،جنوبی ایشیا اور یورپ میں استعمال ہوتی رہی ہیں، مگر مصنوعی ریشم کے مقابلے میں اس کی پیداوار کا حجم بہت کم رہا ہے۔ ان کے رنگ اور بناوٹی ساخت بھی مختلف ہوتی ہے۔ عام طور پرخودرو ریشمی کیڑے کا پتنگا(moth) کوکون سے نکلنے میں اس کو پہلے ہی نقصان پہنچا چکا ہوتا ہے جس سے ریشم کے دھاگے چھوٹے بنتے ہیں۔
تجارتی مقاصد کے لیے پالے جانے والے ریشمی کیڑے کے پیوپے کوابلتے پانی میں ڈال کریا سوئ کی نوک چُبھاکر ہلاک کر دیا جاتاہے،اس طرح پوراکوکون ایک مکمل دھاگے کی شکل میں حاصل ہوجاتاہے۔ اِن دھاگوں سے بناکپڑامضبوط ہوتاہے اوراسے رنگنا بھی قدرے آسان ہوتا ہے۔
ریشم کی تاریخ 6000بی سی میں چین سے شروع ہوتی ہے، 3000بی سی میں چین میں ریشم یقینابن چکا تھا۔ ایک روایت کے مطابق اس کا سہرا چینی شہنشاہ زی لنگ شی Xi Ling-Shi کو جاتا ہے۔ ابتداءمیں ریشم کا استعمال بادشاہوں تک محدودتھا۔ مگروقت کیساتھ ریشم چینی تہذیب کا حصّہ بن گیااورچین ہی سے ایشیاءاورباقی دینامیں پھیلا۔ جن علاقوں میں چینی تاجراسے لے گئے وہاں خوبصورتی اورچمک کیوجہ سے یہ بہت مقبول ہوا۔ مانگ بڑھ جانے سے ریشم صنعتی دورسے قبل بین الاقوامی تجارت کاحصّہ بنا۔
جولائ2007میں ژیانگ ژی صوبے کے ایک مقبرے سے ماہرِآثارِقدیمہ نے ریشم کا کپڑابرامد کیا جسے انتہائ پیچیدہ تکنیک سے بنااوررنگاگیا تھا،اسے ڈھائی ہزارسال قبل ژہو ڈائناسٹی کے وقت کابتایاگیاہے۔ ریشم کی تجارت کاسراغ مصرمیں1070BCکی ایک ممی سے ملے ریشمی دھاگے سے ملتاہے۔ بالاخراس کی تجارت ہندوستان،مشرقی وسطٰی،یورپ اورشمالی افریقہ تک پہنچ گئی۔ یہ تجارت اس قدر وسیع پیمایے پرہوئ کہ ایشیاءاوریورپ کے بیچ اس کی تجارت میں استعمال ہونے والے راستہ کا نام شاہراہ ریشم (انگریزی:Silk Road یا Silk route)پڑ گیا۔
تھائ لینڈ کے انتہائ موافق موسم میں ریشم کی ساراسال پیداوارہوتی ہے، خاص طور پر جنوبی اور شمال مشرقی علاقوں میں چاول کی کاشت کے بعد۔ یہاں کی خواتین روایتی طورپرکھڈی پردھاگہ بنتی ہیں اور یہ ہنر ماؤں سے بیٹیوں میں نسل درنسل منتقل ہوتا رہا ہے۔ تھائ لینڈ میں ایک لڑکی کو شادی کے قابل بننے کے لیے یہ ہنر آنا لازمی سمجھا جاتا ہے۔ تھائ لینڈ کے ہر علاقہ کی بنائ کا اپنا خاص ڈھنگ ہے جو دوسرے علاقوں سے مختلف ہوتا ہے
چین کیطرح ایڈیا میں بھی ریشم قدیم زمایے سے استعمال ہوتا آ رہا ہے۔ دنیا میں انڈیا کاریشم کی پیداوار میں دوسرانمبر ہے۔ ریشم کی پیداوارکے بڑے شھروں میں بھودم پوچمپلی Silk city، کانچی پورم، دھم ویرم اور میسور شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بنارسی ساڑھیاں دنیا بھر میں بہت مقبول ہیں۔ مغربی بنگال میں کھڈیوں پر بنا مرشدابادی ریشم بھی بہت مشہور ہے۔ ایڈیا میں ریشم زیادہ تر ساڑھیاں بنانے میں استعمال ہوتا ہے ان میں ریشم کیساتھ چاندی کی تاروں کا بھی استعمال ملتا ہے۔ انڈیا اور پاکستان میں شادی بیاہ میں ریشمی ملبوسات کا کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔
اوڈیسی19.233 میں لکھا ہے کہ اوڈیسیس(انگریزی میں:odysseus) کی قمیض “پیازکے سوکھے چھلکے کیطرح آبداری تھی (انگریزی میں:"gleaming like the skin of a dried onion")، کچھ محتقین اسے ریشمی لباس تصور کرتے ہیں۔ سلطنت روم میں ریشم کی تجارت اوراستمعال کا علم موجودتھا۔ تيبريوس قيصر (انگریزی میں:Tiberius) نے مردوں کا ریشم پہننے کو ممنوع قرار دیا مگر یہ قوانین کارگر ثابت نہیں ہو سکے۔ ریشم کی مقبولیت کے باوجود اس کو بنانے کا طریقہ 550 میں بازنطینی سلطنت کے ساتھ یورپ پہنچا۔ ایک روایت کے مطابق شہنشاہ جسٹینین اول کے لیے کام کرنے والے راہب (انگریزی میں:monk) چین سے ریشم کے کیڑوں کے انڈے اپنی عساء میں بنے خولوں کے اندر چھپا کر قسطنطنیہ لائے تھے، چین میں رہ کر یہ ریشم بنانے کی خفیہ تکنیک بھی سیکھ گئے تھے۔
چینیوں کیطرح بازنطینیوں نے بھی کئی صدیوں تک ریشم بنانے کو راز رکھا اور اس کو بنانے والے کاریگر اور کھڈیاں شاھی محل کے اندر ہوتے تھے۔ جو ریشم بنتا تھا اس سے شاھی لبادہ اور پوشاک تیار ہوتی تھیں اور اعلٰی مرتبہ پہ فائز افراد کو تحفہ میں دی جاتی تھیں۔ جو بچ جاتا وہ مہنگے داموں بک جاتا تھا۔
اسلام میں ریشم کو مردوں پر حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس کی ممنوعیت کی وجہ ریشم کی نسونی علامت اور فضول خرچی سے منسوب کی جا سکتی ہے۔ اس کے باجود چونکہ یہ عورتوں پر ممنوع نہیں ہے اس لیے مسلمانوں میں اس کے استعمال کی تاریخ ملتی ہے۔ مسلمانوں نے اسپین پہ قبضہ کرنے میں ریشم کو ہسپانیہ میں متعارف کرایا۔
وینس کے تاجر بڑے پیمایے پہ ریشم کی تجارت کرتے تھے جس کیوجہ سے ریشم کے بیشتر کاشتکار اطالیہ (انگرزی میں:Italy) میں آکر بس گئے۔ تیرھویں صدی تک اطالوی ریشم تجارت کا اہم حصّہ بن گیا تھا۔ آج بھی شمالی صوبہ کومو (انگریزی میں:Como) کا ریشم دنیا میں سب سے بیش قیمت مانا جاتا ہے۔ فلورنس (انگریزی میں:Florence) کی دولت کا ذریعہ وہاں کی ٹیکسٹائل ‘‘ریشمی اور اونی‘‘ کپڑوں کی صنعت ہے۔
یورپ میں اطالوی ریشم کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے فرانس کے فرانسس اوّل نے اطالوی کاریگروں کو فرانس مدؤ کیا، خاص طور پر لیون (انگریزی میں:Lyon) میں ریشم کی صیعت کی بنیاد رکھی گئی۔ مذہبی تنازعات کیوجہ سے ہونے والی ھجرت سے فرانس میں ریشم کی صنعت کو شدید نقصان پہنچا اور یہ صنعت یورپ کے دوسرے ممالک میں داخل ہوئی۔
جیمس اوّل نے ایگلستان (انگریزی میں:England) میں ریشم کی صنعت کی بنیاد رکھنے کے لیے ایک لاکھ شھتوت کے درخت لگوائے جن میں سے کئی Hampton Court Palace سے ملحق زمیں پر لگائے گئے مگر یہ منصوبہ غلط اقسام کے درخت لگایے کیوجہ سے کامیاب نہ ہو سکا۔ انگریز انٹرپرائر یے 1928ٰء میں سائپرس (انگریزی میں:Cyprus) میں بھی ریشم کی چرخیاں لگوائیں۔ بیسویں صدی کے نصف میں ریشم Lullingston Castle کینٹ (انگریزی میں:Kent) میں بنایا جا رہا تھا۔ ریشم کے کیڑوں کی نشونماء اور چرخی پر لپیٹنے کا کام Zoe Lady Hart Dyke کی نگرانی میں کیا جاتا تھا۔
انگلستان کے جیمس اوّل نے امریکی آبادیوں کو ریشم سے متائرف کرایا، غالبا تمباکو کی پیداوار کو کم کرنے کے لیے۔ اسے صرف کینٹکی (انگریزی میں:Kentucky) میں اختیار کیا گیا۔ 1800ء میں ایک نئ کوشش کے تحت یورپی کاریگروں نے پیٹرسن، نیوجرسی(انگریزی میں:Paterson, New Jersy) میں دوبارہ ریشم کی صنعت کی بنیاد رکھی اور یہ شہر ریشم کا مرکز بن گیا، حالانکہ جاپانی ریشم اس وقت بھی امریکادرآمد ہو رہا تھا اور زیادہ مقبولیت کا حامل تھا۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد جاپانی ریشم کی تجارت بری طرح متاثر ہوئی جس سے ریشم کی قیمت مین بے ایتہا اضافہ ہوا اور امریکی صنعت نے متبادل کے طور پر نائلون (انگریزی میں:Nylon)۔ اس کے علاوہLyocell سے بھی مصنوئ ریشم بنایا جاتا ہے جو Cellulose کی ایک قسم ہے، ی اصلی ریشم کے کافی قریب ہوتی ہے۔
ریشمی دھاگوں کو کاٹ کر دیکھنے سے اس کی تکون ساخت نظر آتی ہے جن کے کنارے گول ہوتے ہیں۔ اس سے روشنی مختلف زاویوں پر منعکس ہوتی ہے اور ریشم کو اس کی قدرتی چمک ملتی ہے۔ نرم و ملائم ہونے کے باوجود ریشم مصنوئ کپڑوں کیطرخ پھسلتا نہیں۔
ریشم کے ریشہ قدرتی طور پر مضبوط ہوتے ہیں مگر گیلی حالت میں اپنی 20 فیصد قوت کھو دیتے ہیں۔ ریشم میں لچک کم ہوتی ہے، اگر اسے تھوڑا سا بھی کھینچا جائے تو یہ ویسا ہی رہ جاتا ہے۔ دھوپ لگنے سے ریشم کمزور ہو جاتا ہے۔ اگرگندا چھوڑ دیا جائے تو اسے کیڑا لگ جاتا ہے۔
ریشم amino acids GLY-SER-GLY-ALA-GLY سے بنتا ہے اور زیادہ تر دھاتی ترشوں اس پر بے اثر ہوتے ہیں مگر یہ گندھک کے تیزاب میں حل ہو جاتا ہے۔ اس پر پسینے سے پنلے نشانات پڑ جاتے ہیں۔
ریشم اپنی جذب کرنے کی صلا حیت کیوجہ سے گرمیوں کے لیے بہترین لباس ہے۔ اس کی ہلکیConductivity کیوجہ سے یہ سردیوں میں جسم کی گرمی کواندر قید کر دیتی ہے۔ ریشم سے قمیض، بلائوز، کرتیاں، پجامے، پوشاک اور اندر پہننے بنائے جاتے ہیں، اس کے علاوہ یشم صوفوں، پردوں، چادروں اور دوسری کئی چیزوں کو بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔
ریشم پیراشوٹ، سائکل کے ٹائروں، لحاف کی بھرائ اور بارود کے تھیلے بنانے میں بھی کام آتا ہے۔ پہلی جنگ عظیم تک ریشم سے بلٹ پروف جیکٹ بنتی تھی۔ ریشم لکھنے کے بھی کام آتا رہا ہے۔
ریشم کا کیڑا ایک خاص قسم کے کاغذ پر انڈے دیتا ہے۔ انڈے سے نکلنے والے ریشم کے کیڑوں کو شھتوت کے تازہ پتّے کھلائے جاتے ہیں۔ تقریباً پینتیس 35 دن میں ریشم کے کیڑوں کا وزن دس ہزار گنا ہو جاتا ہے اور وہ اپنے اطراف کوکون بنانا شروع کر دیتا ہے۔ کیڑا اپنا سر آٹھ کے ھندسے کی شکل میں گھماتا ہے اور دو غدودمائع ریشم خارج کرتے ہیں۔ مائع ریشم بچائو پرپانی میں حل ہو جانے والی Serecin کی پرت ہوتی ہے یہ ہوا لگتے ہی ٹھوس شکل اختیار کر لیتی یے۔ دو سے تین دن میں ریشم کا کیڑا ایک میل کا کوکون بنا چکا ہوتا ہے۔ اس کے بعد ان کو گرم پانی میں ڈال کر ہلاک کر دیا جاتا ہے جبکہ کچھ کو لگلی دفعہ کہ لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔
کوکون کو سائز اور کوالٹی کے خساب سے چھانٹا جاتا ہے اور برش کی مددسے ان کا سرا تلاش کر کے کئی ریشوں کو انک چرخی میں بابدھ دیا جاتا ہے۔ ہر کوکون سے ہزار میٹر (ایک کلومیٹر) کے قریب ریشہ نکلتا ہے۔ ان ریشوں کو جوڑ کر دھاگہ بنا لیا جاتا ہے۔ پھر ان کو بل دیا جاتا ہے تاکہ یہ ساتھ ملے رہیں۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.