![cover image](https://wikiwandv2-19431.kxcdn.com/_next/image?url=https://upload.wikimedia.org/wikipedia/commons/thumb/e/e6/Emblem_of_the_Supreme_Court_of_India.svg/langur-640px-Emblem_of_the_Supreme_Court_of_India.svg.png&w=640&q=50)
بھارتی عدالت عظمٰی
From Wikipedia, the free encyclopedia
بھارت کی عدالتِ عظمیٰ بھارت کے آئین میں اعلیٰ ترین عدلیہ اور نظرِ ثانی کی آخری عدالت ہے۔ اس کے علاوہ یہ اعلیٰ ترین آئینی عدالت ہے جو ملکی قوانین پر نظرِ ثانی کا اختیار رکھتی ہے۔ اس عدالت میں ایک منصفِ اعلیٰ اور زیادہ سے زیادہ 30 دیگر منصفین ہو سکتے ہیں۔ اس عدالت کے پاس کسی مقدمے کی اولین سماعت، ماتحت عدلیہ کے فیصلوں پر نظرِ ثانی اور دیگر آئینی اداروں کو تجاویز دینے کے وسیع تر اختیارات ہیں۔[1]
![Thumb image](http://upload.wikimedia.org/wikipedia/commons/thumb/e/e6/Emblem_of_the_Supreme_Court_of_India.svg/640px-Emblem_of_the_Supreme_Court_of_India.svg.png)
ملک میں نظرِ ثانی کی اعلیٰ ترین عدالت ہونے کی وجہ سے یہاں ملک بھر کی عدالتِ عالیہ (ہائی کورٹ) اور دیگر عدالتوں اور ٹریبیونلز کے مقدمات پر نظرِ ثانی کی کارروائی کی جاتی ہے۔ یہ عدالت شہریوں کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے اور ملک میں مختلف حکومتوں کے مابین تنازعات کو بھی حل کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ملکی صدر کی جانب سے کسی خاص معاملہ بھیجنے جانے پر اس کا آئین کے تحت جائزہ لیتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ عدالت اپنی مرضی سے (سووموٹو) کے تحت خود سے کسی مقدمے کو سماعت کے لیے منظور کر سکتی ہے جس کے لیے کسی درخواست گزار کی ضرورت نہیں پڑتی۔ عدالتِ عظمیٰ کا دیا ہوا فیصلہ تمام ماتحت عدالتوں اور ریاستی اور ملکی حکومت کے لیے لازم ہو جاتا ہے۔[2] آئین کی دفعہ 142 کے تحت ملکی صدر کو عدالتِ عظمیٰ کے فیصلوں پر عمل درامد یقینی بنانے کا اختیار دیا گیا ہے۔