اسلامی عقیدہ
اسلامی الٰہیات / From Wikipedia, the free encyclopedia
عقیدہ دراصل اسلام کے لفظ توحیدی مطلب نعرہ توحید "اللہ اکبر" سے ماخوذ ہے، جس کے معانی ہیں کے (اللہ کی کتاب قران کریم اور اس سے پہلے نازل ہوئی تین کتابوں توریت زبور اور انجیل کو بھی سچے دل اور من سے بیعنہ کسی شک عشباب کے سچ ماننا ،جیسے ایک لفظ کہاہ جاتا ہے "عیقدت کذا" (میں اپنے عقیدے سے بھٹک گیا خدا مجے معاف کرنا اور مجھے یہ بھی یقین ہے کے تو ہی سچ ہے میں جانتا ہوں پھر بھی میں غلطی کر گیا میں گمراہ ہو گیا لیکن تومجھے معاف کرے گا یہ میں یقین رکھتق ہوں تونے مجھے قران مجید میں میری غلطیوں اور گناہوں کو معاف کرنے کا بھی بتایا ہے ) یعنی میں نے اسے (اس عقیدے کو) اپنے دل اور ضمیر سچ باندھ لیا ہے۔ لہذا عقیدہ : اس اعتقاد کو کہا جاتا ہے جو انسان اپنے دل میں کسی چیز کے بارے میں رکھتا ہے، کہا جاتا ہے : "عقیدۃ حسنة" (اچھا عقیدہ)، یعنی : "سالمة من الشک" (شک سے پاک عقیدہ)، عقیدہ در حقیقت دل کے یقین کرنے کے عمل کا نام ہے اور وہ ہے دل کا کسی بات پر ایمان رکھنا اور اس کی تصدیق کرنا۔
اسلام کے پیروکار مسلمان کہلاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے عرب کی غیر مہذب قوم دنیا کو تہذیب سکھانے والی اُستاد بن گئی اور موجودہ دور کی سائنسی ترقی کے لیے کی جانے والی تلاش میں پہلا قدم بھی مسلمانوں کی طرف سے رکھا گیا۔ آپ ﷺ کی وفات کے بعد آپ کے خلفاء راشدین اور صحابہ کرام نے اس کی اشاعت اپنے کردار اور اعمال کے ذریعے پوری دنیا میں کی اور یہ دنیا میں سب سے تیزی کے ساتھ پھیلنے والا مذہب بن چکا ہے۔[1]