From Wikipedia, the free encyclopedia
معاشیات میں یونٹ آف اکاونٹ یا حساب کی اکائی سے مراد مالیاتی اکائی ہوتی ہے جس میں قیمتیں اور قرضے طے کیے جاتے ہیں مثال کے طور پر روپیہ، ڈالر، پاونڈ، یورو، ین، روبل وغیرہ کرنسی کی اکائیاں ہیں۔
کرنسی کے استعمال کے لیے انگریزی زبان کا یہ شعر بہت مشہور رہا ہے۔
یعنی کرنسی کی چار خصوصیات ہوتی ہیں۔
کرنسی ایک ایسی چیز ہوتی ہے جو نہ صرف قوت خرید کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچا سکتی ہے بلکہ قوت خرید کو موجودہ زمانے سے آنے والے زمانے تک بھی منتقل کر سکتی ہے۔
کرنسی کے medium of exchange اور store of value ہونے پر کوئی شک نہیں۔ مگر جو چیز standard of value ہو سکتی ہے وہی یونٹ آف آکاونٹ بھی ہونی چاہیے۔ جب ایک چیز اچھی طرح پہچانی جا سکتی ہے تو اس کی قوت خرید بھی سمجھ میں آ جاتی ہے پھر یہاں دو الگ الگ اصطلاح استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
Murray Rothbard اپنی تصنیف What Has Government Done to Our Money? میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ پہلے زمانوں میں سکے اپنے وزن کے لحاظ سے اپنی قوت خرید رکھتے تھے۔ لیکن اس طرح حکومت ان سکوں کی قدر گرا کر منافع حاصل نہیں کر پاتی تھی۔ اس لیے حکومتوں نے سکوں کو ڈالر، پاونڈ، مارک، فرانک جیسے قومی نام دے دیے تاکہ کرنسی کا تعلق سکوں کے وزن سے ختم کیا جا سکے۔ جب یہ نام ہر جگہ استعمال ہونے لگے تو حکومتیں اپنے سکوں میں دھات کی مقدار کم کرنے لگیں لیکن قانون کے مطابق ایک ڈالر ایک ڈالر ہی رہتا تھا۔ اس طرح حکومت کی آمدنی بڑھ جاتی تھی کیونکہ ملک میں سونے چاندی کی مقدار میں اضافہ نہ ہونے کے باوجود سکوں کی مقدار میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ اضافی سکے حکومت کی جیب میں چلے جاتے تھے۔
جب سکوں میں دھات کی مقدار کم ہونے کی وجہ سے مہنگائی بڑھنے لگتی ہے تو اس کا الزام منڈی پر لگایا جاتا ہے اور حکومت قیمتیں گرانے کے لیے اقدامات شروع کر دیتی ہے۔
سونے اور چاندی کی قیمت گھٹتی بڑھتی رہتی ہے۔ لیکن جب حکومت ان کی درمیانی شرح تبادلہ طے کر دیتی ہے (یعنی bimetallism) تو آگے چل کر ایک ناممکن صورت حال جنم لیتی ہے۔
جب سونے یا چاندی کو "قانونی کرنسی" قرار دیا گیا تو لوگوں کو اس میں کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا۔ حالانکہ انھیں سمجھ جانا چاہیے تھا کہ حکومت کرنسی کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے جو خطرے کی ابتدا ہے۔
کرنسی پر حکومت کی اجارہ داری اس وقت مکمل ہوئی جب حالیہ صدیوں میں کرنسی کے متبادل وجود میں آئے۔ کاغذی کرنسی اور بینک ڈپازٹ نے حکومت کے لیے "کھل جا سم سم" کی طرح خزانوں کے منہ کھول دیے اور پوری معیشت پر کنٹرول مہیا کیا۔
سینٹرل بینکوں پر تنقید کرتے ہوئے ماہر معاشیات میری رتھبارڈ کا کہنا تھا کہ جب جوتوں کی پیداوار اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کسی بورڈ آف گورنرز کی ضرورت نہیں ہوتی تو رقم تخلیق کرنے اور اس کی قیمت مقرر کرنے کے لیے کیوں ہوتی ہے؟ [3]
لگ بھگ دو ہزار سال پہلے روم میں ایک بہت مشہور سلطنت قائم ہوئی تھی۔ پہلی صدی عیسوی کی ابتدا میں رومیوں نے خالص چاندی کا سکہ بنایا تھا جو دیناریس کہلاتا تھا۔ لیکن پہلی صدی عیسوی کے وسط تک، جب نیرو بادشاہ تھا، دیناریس میں چاندی کی مقدار کم کر کے 94 فیصد کر دی گئی۔ سنہ 100ء میں دیناریس میں چاندی مزید کم ہو کر صرف 85 فیصد رہ گئی۔ اس سے بادشاہ نیرو اور اس کے ساتھیوں کو بہت فائیدہ ہوا کیونکہ اب ان کا قرض کم چاندی ادا کر کے بے باق ہو جاتا تھا۔ اس اسکیم سے انھوں نے بڑی دولت اکھٹا کر لی۔
اگلی صدی عیسوی میں دیناریس میں چاندی 50 فیصد سے بھی کم کر دی گئی۔ 244ء تک بادشاہ فلپ (دا عرب) کے زمانے میں دیناریس میں چاندی کی مقدار 0.05% رہ گئی تھی۔ جب سلطنت رومہ کا خاتمہ ہوا اس وقت دیناریس میں صرف 0.02 فیصد چاندی باقی بچی تھی۔
"کرنسی کی گراوٹ ہمیشہ معاشی تباہی کا سبب بنتی ہے۔"
اسپین میں ساتویں صدی عیسوی کے اختتام پر دینار کے سکے میں 65 گرین (grain) خالص سونا ہوا کرتا تھا۔ مسلمانوں کے دور حکومت میں لگ بھگ پانچ سو سال بعد بارہویں صدی کے وسط تک دینار میں 60 گرین سونا اب بھی باقی تھا۔ لیکن اس کے بعد مسیحی بادشاہ نے اسپین پر قبضہ کر لیا۔ تیروھیں صدی کے شروع میں دینار کا نام بدل کر maravedi کر دیا۔ لیکن اب اس میں سونے کی مقدار صرف 14 گرین رہ گئی۔ اس کے بعد اسے ختم کر کے 26 گرین کا چاندی کا سکہ رائج کیا گیا جس کا نام (یونٹ آف اکاونٹ) وہی رہا۔ پندروھیں صدی کے وسط تک اس میں چاندی کی مقدار صرف 1.5 گرین رہ گئی۔
ارسطو نے کرنسی کی چار خوبیاں بتائی تھیں۔ کرنسی پائیدار ہوتی ہے، قابل تقسیم ہوتی ہے، اس کی منتقلی آسان ہوتی ہے اور اس کی قدر کسی کی ضمانت سے مربوط نہیں ہوتی۔
Aristotle test of being durable, divisible, portable, and intrinsically valuable.[6]
اس میں حساب کی اکائی کا ذکر اس لیے نہیں ہے کیونکہ وزن کی اکائی ہی حساب کی اکائی ہوتی تھی۔
جب امریکی ڈالر سونے اور چاندی کا سکہ ہوتا تھا تو سونے اور چاندی کی قیمت وزن کے لحاظ سے ہوتی تھی یعنی چاندی کے 15 سکے سونے کے ایک سکے کے برابر ارزش رکھتے تھے جبکہ دونوں طرح کے سکے وزن اور خالصیت (قیراط) کے لحاظ سے بالکل برابر تھے۔ ہندوستان میں بھی 15 چاندی کے روپے ایک اشرفی (گولڈ مُہر) کے برابر ہوتے تھے۔
لیکن جب بینکاروں نے کاغذی کرنسی جاری کرنی شروع کی تو کاغذی نوٹ کو وزن کے لحاظ سے ارزش دینا ممکن نہ رہا۔ اس لیے وزن کا پیمانہ ہٹا کر محض ایک نام (ڈالر) کو مالیت کا معیار مانا گیا جو نوٹ پر لکھا ہوتا تھا۔ اس طرح حساب کی اکائی وجود میں آئی۔
آج بھی اگر سونے چاندی کے سکوں کا دور واپس آ جائے تو وزن کی اکائی ہی حساب کی اکائی (unit of account) بن جائے گی۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.