ہینڈبال (handball) ایک ٹیم کھیل ہے جس میں دو ٹیموں کے سات کھلاڑی حصہ لیتے ہیں (چھ کھلاڑی اور ایک گول کیپر)، جو ہاتھ کا استعمال کرتے ہوئے گیند اپنے ساتھیوں کو منتقل کرتے ہیں جس کا مقصد مخالف ٹیم کے گول میں گیند کو پھینکنا ہوتا ہے۔
ہینڈبال | |
مجلس انتظامیہ | انٹرنیشنل ہینڈبال فیڈریشن |
---|---|
پہلی دفعہ کھیلی گئی | اواخر انیسویں صدی، جرمنی اور اسکینڈی نیویا (ڈنمارک، سویڈن اور ناروے) |
خصائص | |
رابطہ | ہاں |
ٹیم کے کھلاڑی | 7 فی ٹیم (بشمول گول کیپر) |
مخلوط | ہاں، علاحدہ مقابلے |
زمرہ بندی | ٹیم کھیل، گیند کھیل |
لوازمات | گیند |
جائے وقوعہ | اندرونی یا بیرونی کورٹ |
اولمپکس | 1936 میں گرما اولمپک کا حصہ [1] |
ہینڈبال یا ٹیم ہینڈبال, فیلڈ بال, یورپی ہینڈبال یا اولمپک ہینڈبال) ایک ٹیم کھیل ہے ۔ اس میں ہر ایک ٹیم میں سات کھلاڑی ہوتے ہیں۔ چھ کھلاڑی میدان میں کھیلتے ہیں جبکہ ساتواں کھلاڑی گول کیپر ہوتا ہے۔کھلاڑی گیند ہاتھ کے ذریعے ایک دوسرے کو دیتے ہیں اور مخالف گول پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ کھلاڑیوں کی کوشش ہوتی ہے کہ گیند کو گول کے اندر ڈال سکیں۔کھیل کا مجموعی وقت ایک گھنٹہ ہوتا ہے جو 30 منٹ کے دو ہاف پر مشتمل ہوتا ہے۔ مقررہ وقت میں جو ٹیم زیادہ گول کرتی ہے وہ فاتح قرار پاتی ہے۔
جدید ہینڈ بال کا کورٹ 40 میٹر لمبائی اور 20 میٹر چوڑائی کے حامل مستطیل پر مشتمل ہوتا ہے۔چوڑائی کے اضلاع میں گول آنے سامنے نصب کیے جاتے ہیں۔ گول کے وسط سے چھ میٹر کے ڈی نما حصے میں صرف دفاعی گول کیپر کو رہنے کی اجازت ہوتی ہے۔حملہ آور یا دفاعی ٹیم کا کوئی کھلاڑی اس دائرے میں نہیں آسکتا۔ عام طور پر یہ کھیل ایک ہال میں کھیلا جاتا ہے لیکن بعض ممالک میں فیلڈ بال یا چیک ہینڈ بال کے نام سے کھلے میدان میں بھی کھیلا جاتا ہے۔ اس کی ایک تبدیل شدہ شکل بیچ ہینڈ بال بھی ہے جو ساحل سمندر پر کھیلی جاتی ہے۔یہ تیز کھیل ہے جس میں عام طور پر 20 سے 35 تک گول ہونے کی توقع ہوتی ہے۔دفاعی کھلاڑی حملہ آور کھلاڑیوں کو جسم کی مدد سے روک سکتے ہیں لیکن ہاتھ کی مدد سے دھکا دینے یا کھینچنے کی اجازت نہیں۔دیگر ٹیم کھیلوں کی طرح اس میں بھی مرد و خواتین کی ٹیمیں الگ الگ ہوتی ہیں۔
کھیل کے اصول و ضوابط انیسویں صدی کے اختتام پر وضع کیے گئے۔ ڈنمارک اس کھیل کی جائے پیدائش سمجھی جاتی ہے۔ جدید اصول 1917 میں جرمنی میں شائع کیے گئے۔ اس کے بعد کئی مرتبہ ان میں تبدیلیاں کی گئیں۔مردوں کا پہلا بین الاقوامی میچ 1925 اور خواتین کا پہلا بین الاقوامی میچ 1930 میں کھیلا گیا۔مردانہ ہینڈ بال پہلی مرتبہ 1936 کے گرمائی اولمپکس (برلن) میں شامل کیا گیا۔یہ میدان میں کھیلا گیا۔1972 کے گرمائی اولمپکس منعقدہ میونخ (جرمنی) میں اسے ہال میں کھیلا گیا۔خواتین کا ہینڈ پہلی مرتبہ1976 میں گرمائی اولمپکس میں شامل کیا گیال
عالمی ہینڈ بال فیڈریشن 1946 میں قائم کی گئی جبکہ 2016 تک اس کے 197 رکن ممالک تھے[2] ۔ یہ وسطی یورپ کا مقبول کھیل ہے اور 1938 سے لے کر اب تک اس کے ایک علاوہ تمام مردانہ چیمپئن یورپی ممالک ہی رہے۔خواتین میں بھی یورپی ٹیمیں ہی چھائی ہوئی ہیں تاہم جنوبی کوریا اور برازیل نے بھی ایک ایک مرتبہ خواتین کی چیمپئن شپ جیتی ہے۔یورپ کے علاوہ یہ مشرق بعید، شمالی افریقہ اور جنوبی امریکا میں بھی مقبول ہے۔
آغاز اور ترقی
اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ رومی خواتین زمانہ قدیم میں ہینڈ بال سے ملتا جلتا کھیل "ایکسپلوزم لیوڈورے" کھیلتی تھیں[3] ۔مختلف علاقوں میں اسے مختلف ناموں سے کھیلا جاتا رہا ہے۔19 ویں صدی میں "ہینڈ بولڈ" کے نام سے یہ ڈنمارک اور جمہوریہ چیک کے علاقے ہیزینا میں، ہینڈ بول کے نام سے یوکرائن اور ٹور بال کے نام سے جرمنی میں کھیلا جاتا رہا ہے۔[4]
19 ویں صدی کے اواخر میں باقاعدہ اصول وضع ہونے کے بعد اسے یورپ خاص طور پر ڈنمارک، جرمنی، ناروے اور سویڈن میں پزیرائی ملی۔ 1906 مین پہلی مرتبہ ڈینش نژاد اولمپک میڈلسٹ لیفٹننٹ ہولگرنیلسن نے اس کے اصولوں کو لکھا۔ وہ کوپن ہیگن کے آرڈرپ گرائمر اسکول میں جسمانی تربیت کے استاد تھے۔ جدید اصول 29 اکتوبر 1917 کو شائع ہوئے جنہیں میکس ہیزئر، کارل شیلنز اور ایرک کونائی نے شائع کیے ۔ ان کا تعلق جرمنی سے تھا۔1919 میں انھیں کارل شیلنز نے بہتر کیا۔مردوں کی ٹیم کا پہلا بین الاقوامی میچ جرمنی اور بیلجیئم کے درمیان 1925 اور خواتین کا میچ 1930 میں جرمنی بمقابلہ آسٹریا کھیلا گیا۔
1926 میں کانگریس آف انٹرنیشنل امچیور ایتھلیٹکس فیڈریشن نے ایک کمیٹی قائم کی جس کا مقصد فیلڈ بال کے لیے فیلڈ بال کے اصول وضع کرنا تھا۔انٹرنیشنل امچیور ہینڈ بال فیڈریشن کا قیام 1928 میں عمل میں آیا جبکہ انٹرنیشنل ہینڈ بال فیڈریشن 1946 میں قائم ہوئی۔
1936 میں پہلی مرتبہ برلن میں منعقد ہونے والے گرمائی اولمپکس میں مردانہ فیلڈ بال کو متعارف کرایا گیا۔اگلے کئی برسوں تک سکنڈے نیویا کے ممالک میں اس کھیل نے ارتقا کے مراحل طے کیے۔ خاص طور یہ ہال کے اندر کھیلے جانے والے کھیل کے طور پر مقبول ہوا۔میونخ میں ہونے والے 1972 کے گرمائی اولمپکس میں دوبارہ شامل کیا گیا جبکہ 1976 میں پہلی مرتبہ خواتین کی ہینڈ بال کو گرمائی اولمپکس (مونٹریال) میں جگہ ملی۔ یہیں سے اس کھیل کو عالمی شہرت ملی اور یہ دنیا کے دیگر خطوں میں پھیلنا شروع ہوا۔
عالمی ہینڈ بال تنظیم نے پہلی مرتبہ 1938 میں مردوں کی چیمپئن شپ منعقد کرائی اور ہر تین یا چار سال بعد 1995 تک یہ منعقد ہوتی رہی۔درمیان میں دوسری جنگ عظیم کے باعث یہ مقابلے نہ ہو سکے۔ 1995 میں یہ مقابلے آئس لینڈ میں ہوئے اور فیصلہ کیا گیا کہ ہر انھیں ہر دوسال بعد کرایا جائے گا۔ خواتین کی چیمپئن شپ 1957 میں شروع ہوئی۔ ائی ایچ ایف مرد و خواتین کے علاوہ جونیئر ٹیموں کی چیمپئن شپ بھی کراتی ہے۔2009 میں آئی ایچ ایف کے پاس 166 رکن ممالک رجسٹر تھے جن کی سات لاکھ پچانوے ہزار ٹیمیں اور کم و بیش ایک کروڑ نوے لاکھ کھلاڑی یہ کھیل کھیل رہے تھے۔
اصول
کھیل کے اصول فیڈریشن کی ویب سائٹ سے لیے جا سکتے ہیں تاہم ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔[5]
خلاصہ
ہر میچ دو ٹیموں کے درمیان کھیلا جائے گا۔ہر ٹیم میں کل ساتھ کھلاڑی ہوں گے جن میں سے چھ میدان میں کھیلیں گے جبکہ ایک گول کیپر ہوگا۔گول کرنے کے لیے ہر ٹیم کو گیند مخالف ٹیم کے گول میں پھینکنا ہوگا۔ کھلاڑیوں کو ان اصول کو ذہن میں رکھنا ہوگا۔
- گیند حاصل کرنے کے بعد کھلاڑی گیند کو اپنے رکھ سکتا ہے، دوسرے کھلاڑی کو پاس کرسکتا ہے یا پھینک سکتا ہے۔
- اگر گیند کھلاڑی کے پاس ہے تو وہ لازمی اسے ہر تین سیکنڈ میں ٹپ دے گا۔
- دفاعی گول کیپر علاوہ کوئی اور کھلاڑی خواہ اس کا تعلق حملہ آور یا دفاعی ٹیم سے ہو چھ میٹر کے ڈی کے اندر زمین کو نہیں چھو سکتا۔تاہم گیند کو گول میں پھینکنے کے بعد حملہ آور کھلاڑی ایسا کرسکتا ہے لیکن گیند کے گول میں جانے سے پہلے وہ اس علاقے میں داخل ہوا تو گول تسلیم نہیں کیا جائے گا۔گول کیپر اس علاقے سے باہر جا سکتا ہے لیکن اسے گول ایریا باؤنڈری سے گزرتے ہوئے گیند کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں
- گیند گول کیپر کو پاس نہیں کی جا سکتی جب وہ ایک مرتبہ گول ایریا میں داخل ہو جائے۔
کھلاڑی گول ایریا کے اندر ہوا میں گیند کو ہاتھ لگا سکتے ہیں، پاس دے سکتے ہیں اور گول میں بھی پھینک سکتے ہیں
کھیل کا میدان
عالمی معیار کے مطابق کھیل کے میدان کی لمبائی 40 جبکہ چوڑائی 20میٹر ہوتی ہے۔چوڑائی کے رخ پر دو گول آمنے سامنے نصب کیے جاتے ہیں۔ ان گولز کے سامنے انگریزی حرف ڈی کی طرح کا نصف دائرہ لگایا جاتا ہے جس کا رداس چھ میٹر ہوتا ہے۔اس نصف دائرے سے باہر ایک اور نصف دائرہ نو میٹر رداس کا لگایا جاتا ہے اسے فری تھرو لائن کہا جاتا ہے۔ میدان کے وسط میں ایک لکیر میدان کو لمبائی کے رخ آدھا آدھا تقسیم کرتی ہے۔
گول
گول پوسٹ دو میٹر بلند ہوتے ہیں جبکہ تین میٹر چوڑے رکھے جاتے ہیں۔کھلاریوں کو نمایاں نظر آنے کے لیے انھیں رنگ کیا جا سکتا ہے۔کوشش کی جانی چاہیے کہ دونوں گول پوسٹ پر ایک ہی رنگ کیا جائے۔
یہ بھی اچھی چیز ہے کہ فٹ بال کی طرح گول کے پیچھے کی طرف جال لگایا جائے تاکہ جب گیند گول اندر پھینکی جائے تو معلوم ہو جائے کہ گیند پوسٹ کے اندر سے گذری ہے۔
ڈی علاقہ
ہاکی کے ڈی کی طرح ہینڈ بال کا بھی نصف دائرے کا ڈی بنایا جاتا ہے۔کھیل میں اس ڈی کی کافی اہمیت ہے کیونکہ دفاعی گول کیپر کے علاوہ کوئی اور کھلاڑی خواہ اس کا تعلق کسی بھی ٹیم سے ہو ڈی میں داخل نہیں ہو سکتا تاہم وہ ڈی کے اندر ہوا میں اچھل کر گیند پھینک سکتا ہے۔
اگر کوئی حملہ آور کھلاڑی ڈی میں داخل ہوتا ہے یا اس کے جسم کا کوئی حصہ ڈی اندر زمین پر لگتا ہے تو اس کی ٹیم کے خلاف فاؤل دیا جائے گا۔اسی طرح اگر کوئی دفاعی کھلاڑی ایسا کرتا ہے تو بھی یہ فاؤل ہوتا ہے۔
انتظامی علاقہ
40 میٹر والے اضلاع کے باہر دونوں ٹیموں کے متبادل کھلاریوں، کوچ اور دیگر عملہ کے بیٹھنے کی جگہ بنائی جاتی ہے۔وونوں ٹیموں کا عملہ ایک ہی طرف بیٹھے گا لیکن اسی طرف ہی بیٹھے گا جس طرف ان کا گول ہوگا۔ آدھے وقت کے بعد جب دونوں ٹیموں کے گول بدلے جائیں گے تو عملہ کے بیٹھنے کی جگہ بھی بدل جائے گی۔ میچ کے دوران ایک ٹیم کا عملہ دوسری ٹیم کے عملہ کے علاقہ میں نہیں جائے گا
وقت
16 سال سے زائد کھلاڑیوں کا میچ 30 منٹ کے دو ہاف پر مشتمل ہوتا ہے۔دونوں ہاف کے درمیان دس سے پندرہ منٹ کا وقفہ رکھا جاتا ہے۔آدھے وقت کے بعد دونوں ٹیمیں گول کی جگہ بدل جاتی ہیں۔ کم عمر کھلاڑیوں میں ہر ہاف کا وقت کم کرکے 25 یا 20 منٹ بھی کیا جا سکتا ہے۔ہر ملک اور ہر ٹورنامنٹ کے اپنے اپنے اوقات ہو سکتے ہیں
اگر میچ کے اختتام پر دونوں ٹیموں کے گول برابر ہوں تو میچ برابری پر ختم ہو جائے گا لیکن میچ کا فیصلہ لازمی ہے جیسا کہ ناک آؤٹ راؤنڈ وغیرہ تو پھر 5 منٹ کے دو اضافی وقت دیے جا سکتے ہیں جن کے درمیان 1 منٹ کا وقفہ ہوگا۔اگر تب بھی فاتح کا فیصلہ نہ ہو پائے تو پینلٹی شوٹ آؤٹ دیے جائیں گے جب تک کہ فیصلہ نہ ہو جائے۔
میچ کے دوران ریفری ٹائم آؤٹ دے سکتا ہے اور اس کی کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے جیسا کہ کسی کھلاڑی کو چوٹ لگ جانا، کسی کھلاڑی کی معطلی یا کورٹ کی صفائی وغیرہ۔ اسی طرح گول کیپر کی تبدیلی کے لیے ٹائم آؤٹ دیا جاتاہے۔
2012 میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ دونوں ٹیمیں میچ کے دوران ایک منٹ پر مشتمل تین مرتبہ ٹائم آؤٹ لے سکتی ہیں۔ ہر ہاف میں زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ ٹائم آؤٹ لیا جا سکتا ہے۔ جب ایک ٹیم ٹائم آؤٹ لے گی تو دوسری ٹیم کو از خود ٹائم آؤٹ ملے گا لیکن اس کا اپنا ٹائم آؤٹ برقرار رہے گا۔اس طرح ہر ٹیم کو چھ مرتبہ ٹائم آؤٹ مل سکتا ہے۔قانون کے مطابق ٹائم آؤٹ کھیل کے دوران کسی بھی وقت لیا جا سکتا ہے تاہم وہی ٹیم ٹائم آؤٹ لے گی جس کے پاس گیند ہوگی۔اس مقصد کے لیے ٹیم کا عملہ سبز رنگ کا ایک کارڈ یا انگریزی حرف ٹی کو ٹائم کیپر کے سامنے لہرائے گا۔ٹائم آؤٹ خواہ ریفری کی طرف سے ہو یا ٹیم کی طرف سے ٹائم کیپر گھڑی کو روک دے گا۔
ریفری
ایک ہی وقت میں دو ریفری کھیل کے میدان میں موجود ہوتے ہیں دونوں ہاف لائن مخالف طرف رہتے ہوئے کھیل کو چلاتے ہیں۔ بعض جگہوں پر ایک ہی ریفری بھی تعینات کی جا سکتا ہے۔ریفری کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ حالات و واقعات کے مطابق دونوں ریفری مل کر بھی کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں۔ریفری کے فیصلے کے خلاف اسی وقت اپیل کی جا سکتی ہے جب ریفری کوئی فیصلہ قانون کے مطابق نہ دے۔
دونوں ریفری اس طرح سے میچ میں کھڑے ہوتے ہیں کہ دونوں ہی پورے میچ کو دیکھ سکیں اور ساتھ ہی گیند کے باہر جانے کا بھی خیال رکھ سکیں۔ ان دونوں ریفریز کے کردار بھی میچ کے دوران مختلف ہو جاتے ہیں۔جس ٹیم کے ہاف میں گیند ہوتی ہے وہاں کا ریفری فیلڈ ریفری کہلاتا ہے جبکہ دوسرے ہالف کا ریفری گول ریفری کہلاتا ہے۔ جونہی گیند ہاف لائن کے دوسری طرف آتی ہے ویسے ہی دونوں ریفریز کے کردار بھی تبدیل ہو جاتے ہیں۔
آئی ایچ ایف نے ریفریز کے لیے اٹھارہ اشارے بھی ترتیب دیے ہیں۔ کھلاڑیوں کو فاؤل پر پیلا اور سرخ کارڈ بھی دکھائے جا سکتے ہیں [6] ۔ اس کے علاوہ اپنی طرف توجہ مبذول کرانے کے لیے سیٹی کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔
ریفری کے علاوہ سکور کیپر اور ٹائم کیپر بھی موجود ہوتے ہیں۔ سکور کیپر کا کام دونوں ٹیموں کے کیے گولوں کا ریکارڈ رکھنا ہے۔ ایک سکور کیپر اسی وقت کسی ٹیم کا گول اپنے ریکارڈ میں درج کرے گا جب ریفری گول کا اشارہ دے گا۔ اسی طرح ٹائم کیپر وقت کا خیال رکھے گا اور جونہی اسے ریفری کی طرف سے کسی بھی قسم کے ٹائم آؤٹ کا اشارہ ملے گا گھڑی کو روک دے گا۔ کھیل کا آدھا یا مکمل یا اضافی وقت ختم ہونے کا اشارہ یا سیٹی بھی ٹائم کیپر ہی دے گا۔
کھلاڑی، متبادل کھلاڑی اور دیگر عملہ
ہر ٹیم کے ساتھ کھلاڑی ایک وقت میں میدان میں اتر سکتے ہیں جبکہ ان کے متبادل کھلاڑی میدان سے باہر بنچ پر اپنے حصے میں موجود رہتے ہیں۔گول کیپر ٹیم کے دیگر کھلاڑیوں سے مختلف رنگ کا لباس پہنے گا۔کھلاڑیوں کی شرٹ پر نمبر موجود ہوتے ہیں اور جب کسی کھلاڑی کو تبدیل کرنا ہو نمبر کے ذریعے کسی بھی وقت تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن یہ کام انتظامی علاقے میں ہوگا اور اس کے لیے ریفری کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ فٹ بال کے برعکس کھلاڑی بار بار تبدیل ہو سکتے ہیں
جرمن ہینڈ بال کے قانون کے مطابق جونیئر ٹیم کھلاڑی اسی وقت تبدیل کیے جا سکتے ہیں جب ٹائم آؤٹ لیا گیا ہو۔ اس کا مقصد ماہر کھلاڑیوں کو جلد ٹیم میں شامل ہونے سے روکنا ہے۔
میدان کے کھلاڑی
کھلاڑی گھٹنوں سے اوپر جسم کے کسی بھی حصے سے گیند کو چھو سکتے ہیں۔ کوئی بھی کھلاڑی تین سیکنڈ یا تین قدم سے زیادہ گیند کو ہاتھ میں نہیں رکھ سکتا۔ اگر یہ وقت ختم ہو جائے تو ریفری اس کے خلاف فاؤل دے سکتا ہے۔ فاؤل سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ کھلاڑی گیند کسی دوسرے کھلاڑی کو پاس کرے، پھینکے یا ٹھپے دیتا رہے۔ ٹھپے دینے کے دوران وہ صرف گیند کے اوپری حصے کو چھو سکتا ہے یعنی اس دوران گیند کو پکڑنا فاؤل ہے۔اگر ٹھپے دینے کے بعد کھلاڑی گیند کو پکڑ لے تو پھر اگلی مرتبہ ٹھپے دینے لے لیے لازمی ہے کہ وہ گیند کو پھینکے یا دوسرے کھلاڑی کو پاس کرے۔ جب گیند دوبارہ آئے گی تبھی وہ دوبارہ ٹھپے دے سکتا ہے۔ڈی میں گیند گول کیپر کے علاوہ گیند کو ہاتھ لگانا فاؤل ہے اور گیند فوری طور پر مخالف ٹیم دی جا سکتی ہے۔
گول کیپر
صرف گول کیپر کو اجازت ہے کہ وہ ڈی کے احاطے میں حرکت سکتا ہے تاہم گول کیپر ڈی کی حد سے گزرتے ہوئے گیند کو نہ تو ہاتھ میں لے سکتا ہے اور نہ ٹھپے دے سکتا ہے۔گول کیپر اپنے جسم کے کسی بھی حصے بشمول پاؤں سے گیند کو چھو سکتا ہے۔تاہم گھٹنوں سے نیچے چھونے کے لیے ضروری ہے کہ اسے وہ صرف دفاع کے مقصد کے لیے کررہا ہو ورنہ یہ فاؤل شمار ہوگا۔کھیل کے دوران ہی کسی گول کیپر کو کھلاڑی سے بدلا جا سکتا ہے یعنی گول کیپر کھلاڑی اور کھلاڑی گول کیپر بن سکتا ہے تاہم کھلاڑی کے گول کیپر بننے کی صورت میں اسے اپنی قمیض پر کوئی ایسا واضح نشان لگانا ہوگا جس سے باآسانی معلوم ہو سکے کہ وہ گول کیپر ہے۔گول کیپر کی تبدیلی سے متعلق قوانین نئے ہیں اور انھیں 2015 میں پہلی مرتبہ خواتین کی عالمی چیمپئن شپ میں آزمایا گیا اس کے بعد جنوری 2016 میں ہونے والی مردوں کی عالمی چیمپئن شپ میں بھی انھیں شامل کیا گیا۔2016 کے ریو اولمپکس میں بھی قانون استعمال کیا گیا۔
اگر گول کیپر گیند کو گول لائن کے اوپر سے میدان سے باہر پھینک دے تو گیند دوبارہ اسی ٹیم کو ملے گی (فٹ بال میں ایسا کرنے سے مخالف ٹیم کو کارنر ملتا ہے)۔گول کیپر ڈی کے اندر سے تھرو پھینک سکتا ہے اسے گول کیپر تھرو کہتے ہیں (جیسا کہ فٹ بال میں گول کک ہوتی ہے)۔
ڈی کے باہر گول کیپر بھی عام کھلاڑی کی طرح کھیلے گا اور اس پر وہی قوانین لاگو ہوں گے۔اسی طرح گول کیپر گیند ہاتھ میں لے کر یا ٹھپے دیتے ہوئے اپنے ڈی میں واپس نہیں آسکتا
دیگر عملہ
ہر ٹیم زیادہ سے زیادہ چار افراد کو عملہ میں شامل کرسکتی اور یہ عملہ کسی بھی طرح کھیل میں حصہ نہیں لے گا۔ایک رکن کو نمائندہ قرار دیا جائے گا۔ کوچ، فزیو اور منتظم اس کے علاوہ ہو سکتے ہیں۔نمائندہ ہی وہ شخص ہوگا جو ٹائم آؤٹ لے گا۔یہی شخض ہی سکور کیپر، ٹائم کیپر اور ریفری سے گفتگو کا مجاز ہوگا۔ریفری کی اجازت کے بغیر عملہ کا کوئی فرد کورٹ میں داخل نہیں ہو سکتا
گیند
گیند گول ہوتی ہے جو چمڑے یا اسی قسم کے کسی اور مادے سے بنائی جاتی ہے۔اس میں بھی ہوا بھری جاتی ہے۔تاہم اس کی سطح کھردری اور غیر چمکدار ہونی چاہیے۔ چونکہ کھلاڑی گیند کو ایک ہی ہاتھ سے تھام سکتے ہیں لہٰذا ہر عمر کے لحاظ سے اس کا حجم مختلف ہو سکتا ہے۔
حوالہ جات
بیرونی روابط
Wikiwand in your browser!
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.