From Wikipedia, the free encyclopedia
کائناتی شعاعیں (cosmic rays) دراصل بہت تیز رفتار جوہری ذرات (زیرجوہری ذرہ) ہوتے ہیں جو کائنات کے دور دراز مقامات سے آتے ہیں۔ یہ برقناطیسی اشعاع پر مشتمل نہیں ہوتے۔ چونکہ یہ بار دار یعنی charged ہوتے ہیں اس لیے یہ زمین کے مقناطیسی میدان میں اپنا راستہ بدل لیتے ہیں اس وجہ سے ان کی آمد کی سمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
دنیا میں موجود particle accelerator کی مدد سے ایٹمی ذرات کو 1012 سے 1013 eV تک کی توانائی دی جا سکتی ہے۔ کوسمک ریز اس سے بھی زیادہ توانائی کی ہوتی ہیں اور مختلف چیزوں کی ionization کر دیتی ہیں۔
کوسمک ریز کا 89 فیصد پروٹون یعنی ہائیڈروجن کے مرکزے پر مشتمل ہوتا ہے۔ لگ بھگ 10 فیصد الفا ذرات یعنی ہیلیئم کے مرکزے پر مشتمل ہوتا ہے۔ اور ایک فیصد کے قریب بیٹا ذرات یعنی الیکٹران ہوتے ہیں۔ بہت ہی کم مقدار لیتھیئم بریلیئم اور بورون کی ہوتی ہے۔ انتہائی کم مقدار میں فنا کنندہ مادہ (anti matter) یعنی پوزیٹرون، اینٹی پروٹون اور اینٹی ہیلیئم بھی اس میں موجود ہوتا ہے۔
زمین پر پہنچنے والے اینٹی پروٹون کی توانائی 2 گیگا الیکٹرون وولٹ ہوتی ہے۔ اس کا ماخذ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
کوسمک ریز کے زیادہ تر ذرات کی توانائی 10MeV سے 10GeV تک ہوتی ہے۔
اب تک ایسے 15 ذرات کا مشاہدہ ہو چکا ہے جن کی انفرادی توانائی 300 ارب ارب الیکٹرون وولٹ یعنی لگ بھگ 50 جول تھی۔ اگر پانچ اونس (155گرام)کی ایک بیس بال سو کلومیٹر کی رفتار سے کسی کو ٹکرائے تو بھی اتنی ہی توانائی خارج ہوتی ہے۔ ان ذروں کی رفتار اتنی تیز ہوتی ہے کہ اگر روشنی کے فوٹون سے مقابلہ کیا جائے تو دو لاکھ 20 ہزار سال بعد یہ ذرہ فوٹون سے صرف ایک سنٹی میٹر پیچھے رہ جائے گا۔[1]
اب تک کوسمک ریز کا طاقتور ترین ذرہ 1991ء میں University of Utah Fly’s Eye experiment کے مشاہدے میں آیا تھا۔ اس ذرے کی توانائی 320 ارب ارب الیکٹرون وولٹ تھی۔ اس ذرے کا نام Oh-My-God پڑ گیا۔[2]
انیسویں صدی کے آخر میں تابکاری کی ایجاد کے بعد یہ معلوم ہو چکا تھا کہ زمین خود بھی تابکاری خارج کرتی ہے کیونکہ مٹی میں نہ ہونے کے برابر یورینیئم موجود ہوتا ہے جو تابکار ہوتا ہے۔ 1910ء میں Domenico Pacini نے دریافت کیا کہ صرف تین میٹر گہرے پانی میں تابکاری کم ہو جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نکلتا تھا کہ آسمان سے بھی تابکاری آ رہی ہے۔
1912 میں Victor Hess نامی سائنس دان نے گرم ہوا سے اڑنے والے غبارے کی مدد سے 5300 میٹر کی بلندی پر جا کر کچھ تجربات کیے اور ثابت کیا کہ یہ شعاعیں بلندی پر زیادہ ہوتی ہیں اور یہ کہ یہ سورج کی وجہ سے نہیں ہیں۔
ایک دوسرے شخص Werner Kolhörster نے 1913-1914 میں 9 کلومیٹر کی بلندی پر تجربات سے یہی نتیجہ اخذ کیا۔
1936 میں Victor Hess کو اپنی اس ایجاد پر فزکس کا نوبل انعام ملا۔
اپنی بے پناہ توانائی کی وجہ سے کوسمک رے ہوا کے ایٹموں میں سے الیکٹران نکال باہر کرتی ہیں۔ الیکٹران کے اس طرح ایٹم سے نکل جانے کو ionization کہتے ہیں۔
کوسمک ریز دوسری اشیاء میں سے بھی الیکٹران باہر نکال دیتی ہیں اور آئین شناخت کرنے والے آلے مثلاً گیگر کاونٹر Geiger counter, آئین چیمبر , cloud chamber, ببل چیمبر یا سنٹیلیشن (scintillation) ڈیٹیکٹر کوسمک ریز کی موجودگی کا پتہ دے دیتے ہیں۔
ماضی میں سائنس دانوں نے کوسمک رے کی شناخت کے لیے ایک بہت آسان طریقہ استعمال کیا۔ شفاف پلاسٹک کی کئی چھوٹی چھوٹی چادریں ایک کے اوپر ایک بچھا کر انھیں کوسمک ریز کے سامنے رکھ دیا۔ جب کوسمک رے کے ذرے ان پلاسٹک میں سے گزرتے ہیں تو ionization کی وجہ سے بندوق کی گولی کی طرح ان میں سوراخ کرتے چلے جاتے ہیں لیکن یہ سوراخ انتہائی باریک ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ان پلاسٹک شیٹ کو ہلکے گرم کاسٹک سوڈے میں ڈال دیتے ہیں جو پلاسٹک کو آہستہ آہستہ گلا دیتی ہے۔ اس سے پلاسٹک شیٹ کی موٹائی بھی کم ہو جاتی ہے اور اس کے اندر موجود سوراخ بھی بڑے ہو جاتے ہیں۔ اب یہ سوراخ 1600 گنا بڑا دکھانے والی خوردبین سے نظر آجاتے ہیں۔
جب کوسمک رے پہلی پلاسٹک شیٹ میں داخل ہوتی ہے تو سوراخ چھوٹا ہوتا ہے۔ جیسے جیسے کوسمک رے کی رفتار کم ہوتی جاتی ہے بعد کی شیٹوں کے سوراخ بڑے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ ہر ایک شیٹ میں بھی داخل ہونے کا سوراخ چھوٹا اور خارج ہونے کا سوراخ بڑا ہوتا ہے۔ کوسمک رے کے جن ذروں پر زیادہ چارج ہوتا ہے وہ بڑی جلدی بڑے بڑے سوراخ بنا دیتے ہیں اس طرح ان کا ایٹمی نمبر پہچانا جا سکتا ہے۔ جبکہ ذرے کی توانائی جتنی زیادہ ہو گی اتنی ہی زیادہ پلاسٹک شیٹوں میں سوراخ ہو جائے گا۔ اس طرح ذرے کی توانائی اور نوعیت دونوں معلوم ہو جاتی ہیں۔
یہ طریقہ اب بھی ایٹمی ری ایکٹر میں ایٹم کے ٹوٹنے پر بننے والے ذرات کی شناخت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
کوسمک رے میں موجود نیوٹرون ہوا میں موجود نائٹروجن سے نیوکلیائی تعامل کر کے کاربن 14 بناتے ہیں جو مرے ہوئے جانداروں کی عمر معلوم کرنے کے طریقے radiocarbon dating کی اساس ہے۔
ہوا میں موجود ہر دس کھرب کاربن کے ایٹموں میں صرف ایک ایٹم کاربن 14 کا ہوتا ہے۔ یہ ناپائیدار ہوتا ہے اور اس کی نصف حیات 5730 سال کے لگ بھگ ہوتی ہے۔
دنیا میں موجود ہر تابکار مادے کی مقدار وقت کے ساتھ کم ہوتی جا رہی ہے مگر کاربن14 چونکہ کوسمک ریز کی وجہ سے مسلسل بن رہا ہے (اور مسلسل ٹوٹ بھی رہا ہے) اس لیے اس کی مقدار میں کمی نہیں آتی اور اسی وجہ سے اسے ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اندازہ ہے کہ پچھلے ایک لاکھ سالوں سے اس کی مقدار میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ کوسمک ریز کی وجہ سے فضا میں اس کی کل مقدار لگ بھگ 70 ٹن پر قائم تھی مگر 1950ء کے بعد ہونے والے ایٹمی تجربات کی وجہ سے اب یہ بڑھ چکی ہے۔
کاربن14 کی طرح بیریلیئم10 بھی کوسمک ریز کی وجہ سے بنتا ہے۔ اس کی مقدار ناپ کر ماہر ارضیات یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ خطہ زمین کتنے ہزار سال پہلے گلیشئر کے نیچے دبا ہوا تھا یا اس جگہ ماضی میں لینڈ سلائڈ (زمین کا سرکنا) ہو چکا ہے۔[3]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.