From Wikipedia, the free encyclopedia
شاعر۔ ادیب اور نقاد۔ مکمل نام پنڈت برج نارائن چکبست کشمیری برہمن تھے۔ فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ اوائل عمری میں لکھنؤ آ گئے اور رکیتک کالج لکھنؤ سے 1908ء میں قانون کا امتحان پاس کرکے وکالت کرنے لگے۔ 9 برس کی عمر سے شعر کہنا شروع کیا۔ کسی استاد کو کلام نہیں دکھایا۔ کثرت مطالعہ اور مشق سے خود ہی اصلاح کرتے رہے۔ کوئی تخلص بھی نہیں رکھا۔ کہیں کہیں لفظ چکبست پر، جو ان کی گوت تھی، اکتفا کیا ہے۔ شاعری کی ابتدا غزل سے کی۔ آگے چل کر قومی نظمیں لکھنے لگے۔ کئی مرتبہ مرثیے بھی لکھے ہیں۔ نثر میں مولانا شرر سے ان کا معرکہ مشہور ہے۔ ایک رسالہ ستارۂ صبح بھی جاری کیا تھا۔ مجموعہ کلام صبح وطن کے نام سے شائع ہوا۔
برج نرائن چکبست | |
---|---|
(اردو میں: برج نارائن چکبست)،(انگریزی میں: Brij Narayan Chakbast) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 19 جنوری 1882 فیض آباد، صوبہ متحدہ، برطانوی ہند، ابھی اتر پردیش، بھارت |
وفات | 12 فروری 1926 (عمر 44) رائے بریلی، صوبہ متحدہ، برطانوی ہند، ابھی اتر پردیش، بھارت |
شہریت | برطانوی ہند |
والد | پنڈت اڈت نارائن چکبست |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، نثر نگار ، عوامی صحافی |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
درستی - ترمیم |
چکبست کا پیدائشی نام بِرج نرائن تھا جبکہ عوام میں شہرت چکبستؔ کے نام سے شہرت پائی۔ چکبست کی پیدائش 19 جنوری 1882ء کی شب میں محلہ راٹھ حویلی، فیض آباد میں ہوئی۔ اُس وقت چکبست کی والدہ کا قیام اپنے بھائی لالتا پرشاد کے یہاں تھا۔والد کا نام پنڈت اُدِت نرائن چکبست تھا جو پٹنہ میں ڈپٹی کلکٹر تھے۔ پنڈت اُدِت نرائن خود بھی شاعر تھے اور یقینؔ تخلص کرتے تھے۔پندرہویں صدی عیسوی میں جب کشمیریوں نے اپنے وطن کشمیر کو ترک کرکے پنجاب، دہلی، اترپردیش اور بہار جیسے دوردراز علاقوں کو اپنا مسکن بنایا تواِن لوگوں نے جہاں تک ممکن ہو سکا، اپنی علمی لیاقت کو برقرار رکھا۔ چکبست کا خاندان بھی علمی حیثیت میں بلند تھا۔ لیکن چکبست کے والد نے تمام جائداد جو اُن کے بزرگوں نے ورثے میں چھوڑی تھی، ختم کرڈالی تھی۔[1]
1887ء میں جبکہ ابھی چکبست کی عمر پانچ سال ہی تھی، اُن کے والد پنڈت اُدِت نرائن چکبست کا اِنتقال ہو گیا۔ اُس کے بعد والدہ کو مجبوراً اپنے بھائی پنڈت لالتا پرشاد صاحب کے ساتھ لکھنؤ میں رہائش اِختیار کرنا پڑی جو اُس زمانہ میں لکھنؤ میں ملازمت کرتے تھے اور جن کا قیام کشمیری محلہ میں تھا۔[1]
چکبست کی تعلیم پرانی طرز پر گھر سے ہی شروع ہوئی۔ ایک مولوی صاحب نوکر رکھے گئے جنھوں نے اُردو اور فارسی کی کتابوں سے تعلیم شروع کی۔ والد کے اِنتقال کی وجہ سے اُن کی تعلیم تاخیر سے شروع ہوئی۔1895ء میں کاظمین اسکول میں نام لکھوایا گیا جو اُس وقت صرف مڈل اسکول تھا۔ یہیں سے 1897ء میں مڈل پاس کیا ۔ اُسی زمانے میں اُن کے بڑے بھائی پنڈت مہاراج نرائن چکبست لکھنؤ میونسپلٹی میں ملازم ہو گئے۔ جس سے گھر کی حالت کافی بہتر ہو گئی۔ مڈل پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ جوبلی کالج میں داخلہ لے لیا جو اُس وقت صرف ہائی اسکول تھا۔ گورنمنٹ جوبلی کالج سے ہی 1900ء میں میٹرک پاس کرکے کیننگ کالج میں داخلہ لے لیا جہاں سے 1902ء میں ایف اے پاس کر لیا۔ ایف اے کے امتحان کے بعد سخت علیل ہو گئے اور تعلیم کا سلسلہ ایک سال تک منقطع ہو گیا۔ 1903ء میں پھر بی اے میں داخلہ لیا اور 1905ء میں کامیاب ہو گئے۔[2]
1905ء میں بی اے پاس کرنے کے بعد وکالت کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ اُس وقت تک لکھنؤ یونیورسٹی میں وکالت کی تعلیم تو ہوتی تھی لیکن امتحان نہ ہوتے تھے اور طلبہ کو امتحان کے واسطے الہٰ آباد جانا پڑتا تھا۔ الہٰ آباد یونیورسٹی میں اُس وقت وکالت کے دو طرح کے امتحان ہوتے تھے، ایک ہائی کورٹ کا امتحان جو پلیڈرشپ کا امتحان کہلاتا تھا اور دوسرا یونیورسٹی کا ایل ایل بی کا امتحان تھا جسے چکبست نے 1907ء میں پاس کر لیا۔ وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد چھ ماہ کسی تجربہ کار وکیل کے ساتھ تربیت لینا ہوتی ہے، لہٰذا چکبست نے لکھنؤ میں شہنشاہ حسین رضوی کے ساتھ تربیت (ٹریننگ) لینا شروع کردی اور اِس تربیت کو پورا کرکے اُنہی کے ساتھ وکیل کی حیثیت سے کام بھی شروع کیا۔[3]
چکبست ابھی بی اے میں ہی تھے کہ اُن کی پہلی شادی ہوئی۔ یہ شادی پنڈت پرتھوی ناتھ ناگو کی بیٹی سے ہوئی جو اُس وقت لینڈ رِیکارڈ (Land Record) کے دفتر میں ملازم تھے ۔ پہلی بیوی سے شادی کے دوسرے سال ہی لڑکے کی پیدائش کے وقت بیوی کا اِنتقال ہوا۔ یہ لڑکا بھی چند روز زِندہ رہ کر فوت ہو گیا۔ چکبست نے دوسری شادی 1907ء میں پنڈت سورج ناتھ آغا کی بیٹی کھما دیوی سے ہوئی جو سرکاری وکیل تھے۔ کھما دیوی سے کئی اولادیں پیدا ہوئیں لیکن صرف ایک لڑکی 1975ء تک بقیدِ حیات تھی جس کی شادی ہرچند ناتھ کاک سے ہوئی تھی۔ چکبست کی دوسری بیوی کھما دیوی بھی 1975ء تک زندہ تھیں۔[4]
چکبست 12 فروری 1926ء کو جمعہ کے روز رائے بریلی میں علی الدین صاحب بیرسٹر کے مقدمہ میں تشریف لے گئے۔قریب 10 بجے مقدمہ شروع ہوا۔ کیل کار صاحب جو اُس وقت وہاں سب جج تھے، اُن کے سامنے ایک بجے تک بحث کرنے کے بعد اسٹیشن آئے۔ محمد ایوب صاحب ایڈووکیٹ جو دوسری جانب کے وکیل تھے، ساتھ ہی آئے۔ اُن کا کہنا ہے کہ قریب 2 بجے گاڑی آئی۔ اِس میں سوار ہو کر سب لوگوں نے چائے منگائی۔ جیسے ہی چکبست چائے کی پیالی منہ کے قریب لے گئے کہ یک دم سے زبان پلٹ گئی اور عجیب کیفیت ہونے لگی۔ ایوب صاحب اور علی الدین صاحب نے اِن کو لٹا دیا اور فوراً ہی ڈاکٹر کو بلایا۔ جب تک ڈاکٹر آئے، اُس وقت تک کے لیے گاڑی سے اُتار کر اِن کو ویٹنگ روم میں لٹا دیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے دیکھا تو سیدھی طرف فالج کا اثر بتایا۔ لکھنؤ میں موجود چکبست کے بڑے بھائی کو فون کیا گیا جو قریب سات بجے رائے بریلی پہنچے۔ لیکن جیسے ہی انھوں نے کمرہ میں قدم رکھا، چکبست نے آخری سانس لی۔میت 11 بجے رات کو موٹرکے ذریعہ لکھنؤ لائی گئی۔ دوسرے دن تمام کچہریاں بند رہیں۔ 13 فروری 1926ء کو دن 11 بجے میت اُٹھائی گئی اور دریائے گومتی کے کنارے آخری رسومات اداء کی گئیں۔[5]
چکبست نیک طبیعت ، خوش اخلاق ، انسان دوست اور ملنسار واقع ہوئے تھے۔ وہ جن حضرات سے ملتے تھے، نہایت خلوص اور سچے دِل کے ساتھ ملتے تھے۔ انھوں نے تمام عمر کسی کو نقصان پہنچانا نہیں چاہا۔ مباحثہ گلزارِ نسیم کے متعلق ایک مضمون میں لکھا ہے کہ: ’’ جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے، میرے قلم سے ایک فقرہ بھی ایسا نہ نکلے گا جس سے کسی بندۂ خدا کی توہین ہو‘‘[6]۔چکبست تمام عمر اِن خیالات پر پابندی سے کاربند رہے اور یہی وجہ ہے کہ اُن کے اِنتقال پر اُن کے تمام ملنے والے اُن کے ذاتی اوصاف اور اخلاق کو یاد کرتے تھے۔ پنڈت ترلوکی ناتھ کول نے لکھا ہے کہ: ’’چکبست کے ذاتی صفات و اخلاق، سادگی مزاج اور خلقی انکسار نے اپنے وسیع دائرہ میں صدہا احباب و بہی خواہان کو جمع کر لیا تھا، گویا ایک سحر تھا کہ سب کے دِلوں کو تسخیر کیے ہوئے تھا‘‘۔[7]
یہ بات یقین سے کہنا مشکل ہے کہ چکبست نے نثر میں جو مضامین لکھے، اُن کی ابتدا کب اور کس مضمون سے ہوئی؟۔لیکن یہ بات درست ہے کہ اُن کے مضامین محض اِتنے ہی نہیں ہیں جتنے ’’مضامین چکبست‘‘ میں شامل ہوئے ہیں بلکہ اِن کے علاوہ بھی بعض مضامین مختلف رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ اُن کے زیادہ تر مضامین اودھ پنچ، صبح اُمید، بعض کتابوں کے دیباچے، صبح اُمید کے ایڈیٹوریل، معرکہ چکبست و شررؔ کے بعض مضامین، کشمیر درپن، زمانہ، ادیب، اُردوئے معلیٰ، اودھ پنچ، زمانہ اور تہذیب میں شائع ہوئے۔ بعد میں خود چکبست نے انھوں نے ایک رسالہ صبح اُمید کے نام سے اکتوبر 1918ء میں شائع کرنا شروع کیا مگر وہ زیادہ دِن نہ چل سکا۔ اِس رسالہ کے ادارتی مضامین تقریباً سب کے سب خود چکبست ہی کے تحریرکردہ تھے[8]۔چکبست کے 20 مضامین ’’مضامین چکبستؔ‘‘ کی شکل میں شائع ہوئے مگر مضامین چکبست کا جائزہ لیا جائے تو 1903ء میں تین مضامین (پنڈت دیا شنکر نسیمؔ، سرسوتی اور ہجر پر)، 1904ء میں تین مضامین (ذات کی تفریق، رتن ناتھ سرشارؔ، دیباچہ گلزارِ نسیمؔ)، 1905ء میں تین مضامین (داغؔ، سرورؔ، گلزارِ نسیمؔ)، 1906ء میں ’’بھارت درپن‘‘، 1907ء میں ’’دادا بھائی نَوروجی‘‘ لکھے۔ اِس کے بعد 2 سال تک یعنی 1908ء اور 1909ء میں لکھے ہوئے کوئی مضامین نہیں ملتے۔ 1910ء میں پھر دو مضامین (ایک یادگار مشاعرہ، بِشن نرائن در) ملتے ہیں۔ اِس کے بعد چار سال تک کسی مضمون کا پتا نہیں چلتا۔ 1915ء میں پانچ مضامین (اودھ پنچ، منشی سجاد حسین، ظریف، آزاد، برقؔ) ملتے ہیں۔ آخرکار 1918ء میں ایک مضمون ’’ اُردو شاعری‘‘ ملتا ہے ۔ اِس اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ چکبست نے کسی خاص سلسلہ کے ساتھ یا خاص طور پر مضامین نہیں لکھے، بلکہ جب کوئی خاص بات ذہن میں آئی، اُسی وقت مضمون تحریر کر ڈالا[9]۔
چکبست نے ایک ڈراما بھی تصنیف کیا جس کا نام ’’کملا‘‘ ہے، یہ 1915ء میں جی پی ورما برادران پریس، نظیرآباد، لکھنؤ سے پنڈت کشن پرشاد کول کے اہتمام سے شائع کیا گیا تھا۔[10]
چکبست کے متعلق عام خیال یہ ہے کہ انھوں نے شاعری میں کسی کی شاگردی اِختیار نہیں کی۔ پنڈت ترلوکی ناتھ کول نے لکھا ہے کہ: ’’کسی کی شاگردی شاعری میں اِختیار نہ کی یہاں تک کہ تخلص کے بھی گنہگار نہ ہوئے‘‘[11]۔لیکن پنڈت ترلوکی ناتھ کول نے چکبست کے اُستاد کے متعلق اُن کے دو خطوط سے واضح کیا ہے کہ منشی سید افضل علی خاں افضلؔ چکبست کے اُستاد تھے۔ یہ لکھنؤ کے اساتذہ میں سے تھے اور لکھنؤ میں ’’چھوٹے بھیا‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ انگریزی، عربی اور فارسی ، تینوں زبانوں میں معقول درسگاہ رکھتے تھے۔منشی سید افضل علی خاں کے والد تدبیر الدولہ منشی اسیرؔلکھنؤی کے فرزند تھے جو مصحفی کے شاگرد تھے۔ اِس اعتبار سے چکبست کے تلمذ اور شاعری کا شجرہ مصحفی تک جاپہنچتا ہے[12]۔ چکبست کی شاعری میں بالخصوص نظم نگاری میں ہندو مذہبی رنگ بھی دکھائی دیتے ہیں۔’’تنقیدی اور تہذیبی مطالعے‘‘ کی مصنفہ نے چکبست کی نظم نگاری سے متعلق لکھا ہے کہ: ’’ چکبست اگرچہ اپنی قومی اور حب الوطنی سے متعلق نظموں کے لیے مشہور ہیں مگر اُن کی مذہبی نظمیں بھی کم اہم نہیں۔ اپنی نظم ’کرشن کنہیا‘ میں کرشن جی کو جو والہانہ خراجِ عقیدت چکبست پیش کرتے ہیں، اُس سے کرشن کے نغمے کی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے اور تمام دنیا کے لیے کرشن کی بانسری کا نغمہ پیغامِ محبت اور عقیدت بن جاتا ہے[13]۔چکبست کا زمانہ ایسا تھا کہ انگریز حکومت ہندوستان میں بسنے والے مختلف مذاہب خاص طور پر مسلمان اور ہندوؤں کے درمیان تفرقہ ڈالنا چاہتی تھی۔ چکبست نے عجب نہیں کہ یہ اشعار ملک میں قومی یکجہتی کو بھی اُبھارنے کے لیے لکھے ہوں۔ اِن سب باتوں کو چکبست نے بہت خوبصورتی کے ساتھ صوفیانہ ڈھنگ سے پیش کیا ہے۔ آپس کی محبت ہی انسان کی سب سے بڑی دولت ہے۔ اِسے لوگوں کو حاصل کرنا چاہیے۔ یہ دنیا اور اِس کی دولت اور جاہ و چشم کسی کے ساتھ نہیں رہتے۔ اِس کا اشارہ اپنے اشعار میں چکبست بیان کرتے ہیں۔اور جب وہ عقیدت کی منزل میں آتے ہیں تو کرشن جی کے وجودِ انسانی میں معجزاتی جلوے دکھاتے ہیں۔[14]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.