مجلس شوری دار العلوم دیوبند کی اہم اور مرکزی اہمیت کی حامل انجمن ہے جو دارالعلوم کے تمام کاموں کی نگرانی اور رہنمائی کی ذمہ دار اور ایک باختیار مجلس اعلی ہے۔ اس کی تشکیل قیام دار العلوم کے ساتھ ہی عمل میں آگئی تھی۔ اس مجلس کا نظم و نسق شروع ہی سے امرھم شوری بینھم کے شورائی اصول پر قائم ہے۔ اس مجلس شوریٰ کے قیام کا نتیجہ یہ نکلا کہ انتظامات میں بڑی وسعت کے ساتھ جمہوری انداز قائم ہوا۔ ارباب مشورہ کے لیے جن صفات سے متصف ہونا ضروری ہے ان کی نسبت محمد قاسم نانوتوی نے اپنے تحریر کردہ دستور العمل کی تیسری دفعہ میں یہ ہدایت کی ہے:
” | مشیران مدرسہ کو ہمیشہ یہ بات ملحوظ رہے کہ مدرسہ کی خوبی اور خوش اسلوبی ہو، اپنی بات کی پچ نہ کی جائے، خدا نخواستہ جب اس طرح کی نوبت آئے گی تو اہل مشورہ کو اپنی مخالفت رائے اور اوروں کی رائے کے موافق ہونا ناگوار ہو تو پھر اس مدرسہ کی بنیاد میں تزلزل آجائے گا۔ القصہ تہ دل سے بر وقت مشورہ اور نیز اس کے پس و پیش میں خوش اسلوبی مدرسہ ملحوظ رہے، سخن پروری نہ ہو اور اس لیے ضروری ہے کہ اہل مشورہ اظہار رائے میں کسی وجہ سے متامل نہ ہوں اور سامعین بہ نیک نیت اس کو سنیں یعنی یہ خیال رہے کہ اگر دوسرے کی بات سمجھ میں آجائے گی تو اگرچہ ہمارے مخالف ہی کیوں نہ ہو بدل و جان قبول کریں گے اور نیز اسی وجہ سے یہ ضرور ہے کہ مہتمم امور مشورہ طلب میں اہل مشورہ سے ضرور مشورہ کیا کرے، خواہ وہ لوگ ہوں جو ہمیشہ مشیر مدرسہ رہتے ہیں یا کوئی وارد و صادر جو علم و عقل رکھتا ہو اور مدرسوں کا خیر اندیش ہو اور نیز اس وجہ سے ضرور ہے کہ اگر اتفاقاً کسی وجہ سے اہل مشورہ سے مشورہ کی نوبت نہ آئے اور بقدر ضرورت اہل مشورہ کی مقدار معتد بہ سے مشورہ کیا گیا ہو تو پھر اس وجہ سے ناخوش نہ ہو کر مجھ سے کیوں نہ پوچھا۔ ہاں اگر مہتمم نے کسی سے نہ پوچھا تو پھر اہل مشورہ معترض ہوسکتا ہے۔ | “ |
دار العلوم کی مجلس شوری ایک طرف تو چندہ دینے والوں کی نمائندگی کرتی ہے، اسے چندہ دہندگان کے وکیل کی حیثیت حاصل ہے اور دوسری جانب دارالعلوم کے آمد و صرف اور اہم انتظامی امور کے متعلق کثرت رائے سے اپنے فیصلے صادر کرتی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کا ایک دستور اساسی ہے اور دار العلوم کی تمام کارروائیاں اور ضروری فیصلے اسی دستور کی روشنی میں طے پاتے ہیں۔ مجلس شوری انتظامی آئین و ضوابط وضع کرتی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے جملہ اوقاف اور جائدادیں اس کی تولیت و نگرانی میں ہیں اور یہی مجلس دارالعلوم کے مسلک کی حفاظت اور ملازمین کے عزل ونصب کی ذمہ دار ہے۔ مجلس شوری کا اجلاس سال بھر میں کم ازکم دو مرتبہ لازمی ہے۔ ہنگامی مسائل میں اس سے زائد نشستیں بھی ہوتی ہیں۔
ضابطہ رکنیت
دستور کی رو سے مجلس شوری میں کم ازکم گیارہ اراکین کا عالم ہونا ضروری ہے۔ بقیہ دس رکن ایسے غیر عالم حضرات ہو سکتے ہیں جو انتظامی اور تعلیمی امور میں بصیرت و مہارت رکھتے ہوں۔ مہتمم اور صدر مدرس اپنے منصب کے لحاظ سے شوری کے رکن رہتے ہیں۔ انعقاد اجلاس کے لیے اراکین کی کم ازکم ایک تہائی تعداد کا شریک اجلاس ہونا ضروری ہے۔[1]
مجلس شوری کے اولین اراکین
مجلس شوریٰ اپنی ابتدا میں یعنی قیام کے وقت حسب ذیل سات اراکین پر مشتمل تھی:
- محمد قاسم نانوتوی (1283ھ /1866ء تا 1297ھ /1880)
- سید محمد عابد دیوبندی (1283ھ / 1866 تا 1310ھ /1892)
- مہتاب علی دیوبندی (1283ھ /1866ء تا 1304ھ / 1887 )
- مولانا ذوالفقار علی دیوبندی (1283ھ /1866ء تا 1321ھ / 1903ء)
- فضل الرحمن عثمانی دیوبندی (1283ھ / 1866ء تا 1323ھ / 1905)
- سید فضل حق دیوبندی (1283ھ / 1866ء تا 1311ھ / 1893ء)
- نہال احمد دیوبندی (1283ھ / 1866ء تا 1304ھ / 1887)[2]
سابق اراکین شوری
قیام دار العلوم کے بعد سے ہندوستان کی جو شخصیات مجلس شوریٰ کی رکن رہیں، ان کے نام حسب ذیل ہیں:
- حکیم مشتاق احمد
- رشید احمد گنگوہی
- حکیم ضیاء الدین رامپوری
- شیخ ظہور الدین دیوبندی
- احمد حسن امروہوی
- قاضی محمد محی الدین مرادآبادی
- محمد عبد الحق پور قاضی
- مظہر حسین گنگوہی
- حکیم محمد اسمعیل گنگوہی
- سعید احمد انبیٹھوی
- اشرف علی تھانوی
- عبد الرحیم رائے پوری
- حکیم احمد رامپوری
- خلیفہ احمد حسن رامپوری
- داد الہی دیوبندی
- مظہر حسین دیوبندی
- فراغت علی دیوبندی
- شیخ محمد حسین دیوبندی
- حکیم مسعود احمد گنگوہی
- ظہور علی پور قاضی
- شیخ حبیب الرحمن دیوبندی
- قاضی محمد حسن مراد آبادی
- فصیح الدین میرٹھی
- حکیم جمیل الدین نگینوی
- محمد اسحاق کٹھوری
- حکیم مشیت اللہ بجنوری
- عبد الرحمن سیوہاروی
- محمد اشفاق رائیپوری
- حکیم رضی الحسن کاندھلوی
- رشید احمد میرٹھی
- مناظر احسن گیلانی
- مقصود علی مقصود جنگ
- محمد صادق کراچی
- حکیم سعید احمد گنگوہی (حکیم اجمیری، ممبئی)
- محمد سہول بھاگلپوری
- خواجہ فیروز الدین
- محمد فضل اللہ مدراسی
- عبد الرحمن خان بلند شہری
- سعید احمد ہاٹ ہزاری
- رحمت اللہ جالندھری
- نواب محمود رامپوری (مدار المہام ریاست اندر گڑھ، راجپوتانہ)
- محمد شفیع دیوبندی
- محمد الیاس کاندھلوی
- حبیب الرحمن خان شیروانی
- محمد یوسف گنگوہی
- حسین احمد مدنی
- شیخ ضیاء الحق سہارنپوری
- شبیر احمد عثمانی
- کفایت اللہ دہلوی
- محمد ابراہیم راندیری
- حکیم محمد یسین نگینوی
- عبد القادر رائے پوری
- ظہیر الحسن کاندھلوی
- عبد الرشید محمود گنگوہی
- حفظ الرحمن سیوہاروی
- منظور نعمانی
- خیر محمد جالندھری
- شبیر علی تھانوی
- بشیر احمد کٹھوری
- احمد سعید دہلوی
- سید فخر الدین احمد
- محمد نبیہ خانجہانپوری
- عتیق الرحمن عثمانی
- سید سلیمان ندوی
- سید محمد میاں دیوبندی
- مصطفی حسن علوی لکھنوی
- محمد زکریا کاندھلوی
- محمود احمد نانوتوی
- حبیب الرحمٰن الاعظمی
- عبد الصمد رحمانی
- محمد سعید بزرگ سملکی
- منت اللہ رحمانی
- حکیم محمد اسمعیل نگینوی
- محمد ابراہیم بلیاوی
- عبد العلی حسنی ندوی
- ابو الحسن علی حسنی ندوی
- عبد القادر مالیگاوں
- زین العابدین سجاد میرٹھی
- سعید احمد اکبر آبادی
- حامد الانصاری غازی
- مرغوب الرحمن بجنوری
- محمد اسماعیل کٹکی
- فضل اللہ حیدرآبادی
- سید حمید الدین فیض آبادی
- سید فخر الحسن مرادآبادی
- عبد الحلیم جونپوری
- ابو سعود بنگلوری
- حکیم محمد زماں کلکتوی
- حکیم محمد افہام اللہ انونوی
- معراج الحق دیوبندی
- محمد عثمان دیوبندی (نواسہ شیخ الہند)
- محمد صدیق باندوی
- حاجی علاء الدین بمبئی
- عبید الرحمن خاں شروانی
- محمد اسعد مدنی
- حکیم عبد الجلیل صدیقی
- محمد صدیق مرادآبادی (رکن مجلس قانون ساز)
- عبد العزیز رائیپوری
- عبد العزیز حیدرآبادی
- غلام رسول خاموش
- اسمعیل موٹا سورتی
- محمد ازہر نعمانی رانچوی[3]
- محمد رابع حسنی ندوی
- محمد طلحہ کاندھلوی
موجودہ اراکین شوریٰ
- ابو القاسم نعمانی
- مفتی منظور احمد مظاہری کانپور
- بدر الدین اجمل
- عبد العلیم فاروقی
- انوار الرحمن بجنوری
- رحمت اللہ میر قاسمی
- غلام محمد وستانوی
- مولانا سید میاں خلیل حسین دیوبند
- مولانا محمد یعقوب مدراس
- مفتی نظام الدین قاسمی پٹنہ
- مولانا محمد اسمعیل قاسمی مالیگاؤں
- مفتی محمود راجھستان
- حکیم محمد کلیم اللہ علی گڑھ
- مولانا محمد اشتیاق مظفرپور
- مولانا ملک محمد ابراہیم
- مولانا عبدالصمد کالیکاپور مغربی بنگال
مجلس عاملہ
مجلس شوری کے ماتحت 1345ھ / 1927ء سے ایک مجلس عاملہ قائم ہے جس کا اجلاس ہر تیسرے مہینہ ہوتا ہے۔ اس مجلس کی ذمہ داری ہے کہ وہ مجلس شوری کے کاموں میں اعانت و امداد بہم پہنچائے اور مجلس شوری کے تفویض کردہ اختیارات کے مطابق دارالعلوم دیوبند کے انتظامی امور کو عملی جامہ پہنائے۔
کثرت رائے یا اتفاق رائے
دارالعلوم کی مجلس شوری اور مجلس عاملہ کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ اگرچہ فیصلے کے لیے کثرت رائے کا ضابطہ رکھا گیا ہے مگر ان کے فیصلے کثرت رائے کی بجایے بالعموم اتفاق رائے سے طے ہوتے ہیں۔ کسی مسئلہ میں اتفاق رائے نہ ہو سکنے کے واقعات معدودے چند ہیں۔
حوالہ جات
Wikiwand in your browser!
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.