From Wikipedia, the free encyclopedia
غبار خاطر ابو الکلام آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ یہ تمام خطوط نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ کے نام لکھے گئے تھے۔ یہ خطوط قلعہ احمد نگر میں 1942ء تا 1945ء کے درمیان زمانہ اسیری میں لکھے گئے۔ مولانا کی زندگی کا ایک بڑا حصہ قید و بند میں گذرا مگر اس بار قلعہ احمد نگر کی اسیری ہر دفعہ سے زیادہ سخت تھی کیونکہ اس بار نہ کسی سے ملاقات کی اجازت تھی اور نہ کسی سے خط کتابت کرنے کی۔ اس لیے مولانا نے دل کا غبار نکالنے کا ایک راستہ ڈھونڈ نکالا اور خطوط لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرنا شروع کر دیے۔ مولانا نے خود اسی مناسبت سے ان خطوط کو غبار خاطر کا نام دیا ہے اور "خط غبار من است این غبار خاطر" سے اسے تعبیر کیا ہے۔ ایک خط میں شروانی صاحب کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: "جانتا ہوں کہ میری صدائیں آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ تاہم طبعِ نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد و شیون کے بغیر رہ نہیں سکتی۔ آپ سن رہے ہوں یا نہ رہے ہوں میرے ذوق مخاطبت کے لیے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روئے سخن آپ کی طرف ہے۔"
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
مصنف | ابو الکلام آزاد |
---|---|
صنف | نثر |
ناشر | پاکستان و بھارت میں متعدد ناشریں |
مولانا آزاد نے یہ خطوط شائع کرنے کے خیال سے نہیں لکھے تھے لیکن ان کی رہائی کے بعد جب مولوی اجمل خاں کو ان خطوط کا علم ہوا تو مصر ہوئے کہ انھیں ایک مجموعہ کی شکل میں شائع کر دیا جائے اور یوں غبارِ خاطر پہلی مرتبہ محمد اجمل خاں نے مرتب کرکے ایک مقدمہ کے ساتھ مئی 1946 میں شائع کیا،مولانا آزاد کا غبار خاطر لکھنا ایک دلچسپ مطالعہ ہے۔مولانا کے انداز طبیعت کو دیکھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے کہ جیسے مولانا نے یہ خطوط دراصل اپنے ہی نام لکھے ہوں۔
سجاد انصاری نے آزاد کے بارے میں لکھا ہے کہ:
” | اگر قرآن اردو میں نازل ہوتا تو اس کے لیے ابو الکلام کی نثر یا اقبال کی نظم منتخب کی جاتی۔ | “ |
بیسویں صدی کی اہم ادبی شخصیتوں میں مولانا پر کچھ لکھنا جتنا آسان ہے اتنا ہی دشوار ہے۔ آسان ان معنوں میں کہ ان کی شخصیت ایک ایسے دیوتا کی مانند ہے جس کے بت کے سائے میں رقص کرکے پوری عمر گزاری جا سکتی ہے۔ اور دشوار اس طرح کہ ان کے ادبی کارناموں کی قدر و قیمت متعین کرنے کے لیے جب ہم ادب کے مروجہ اصولوں کو سامنے رکھتے ہیں یا اس کسوٹی کو استعمال کرتے ہیں جس پر عام ادیبوں کا کھرا کھوٹا پرکھا جا سکتا ہے تو قدم قدم پر یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ یا تو ہم ان کارناموں کے ساتھ پورا انصاف نہیں کر رہے ہیں یا وہ کسوٹی جھوٹی ہے جس کی صداقت پر اب تک ہمارا ایمان تھا۔ آزاد ہمارے ان نثر نگاروں میں ہیں جن کے ابتدائی کارناموں پر ہمارے بڑے بڑے انشا پرداز سر بسجود ہو گئے تھے۔ غبار خاطر کے اسلوب کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔
ابوالکلام آزاد کی انشاء پردازی کا کمال یہ ہے کہ ان کی تحریر کے انداز ایک سے زیادہ ہیں۔ وہ متعدد اسالیبِ نثر پر قدرت رکھتے ہیں اور حسب ضرورت انھیں کامیابی کے ساتھ برتتے ہیں۔ الہلال و البلاغ کے اداریے اور مضامین گھن گرج اور پرشکوہ انداز بیان کے متقاضی تھے۔ وہاں یہی اسلوب پایا جاتا ہے۔ "تذکرے" کے لیے علمی طرز تحریر کی ضرورت تھی، وہ وہاں موجود ہے۔ غبار خاطر خطوط کا مجموعہ ہے لیکن ان خطوط کے موضوعات الگ الگ ہیں اور موضوع کا تقاضا بھی الگ ہے۔ اس لیے موضوع کی مناسبت سے تحریر کے مختلف اسلوب اختیار کیے گئے ہیں۔ کہیں آسان عام فہم زبان ہے تو کہیں فارسی آمیز علمی زبان تو کہیں شعریت کا غلبہ ہے۔
عام فہم زبان غبار خاطر کے کئی خطوط میں نظر آتی ہے۔ مگر وہیں جہاں موضوع اس کا مطالبہ کرتا ہے۔ مثلاً "چڑا چڑیا کی کہانی" ہر چند کہ ایک علامتی کہانی ہے مگر ہے بہر حال کہانی۔ یہاں واقعات زیادہ اہم ہیں اور ان پر توجہ کا مرکوز رہنا ضروری ہے۔ اس لیے یہاں سادہ سہل زبان استعمال کی گئی ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا اس زبان پر بھی پوری قدرت رکھتے ہیں۔ ایک خط کا اقتباس ملاحظہ ہو۔
” | لوگ ہمیشہ اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو بڑے بڑے کاموں کے لیے کام میں لائیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ یہاں ایک سب سے بڑا کام خود زندگی ہوئی یعنی زندگی کو ہنسی خوشی کاٹ دینا۔ یہاں اس سے زیادہ سہل کام کوئی نہ ہوا کہ مرجائیے اور اس سے زیادہ مشکل کام کوئی نہ ہوا کہ زندہ رہیے۔ جس نے مشکل حل کرلی، اس نے زندگی کا سب سے بڑا کام انجام دے دیا۔ | “ |
شعری زبان تو غبار خاطر کا وصف خاص ہے۔ یہی وہ صفت ہے جس کے سبب یہ کتاب اتنی مقبول ہوئی۔ ایک زمانے تک اس طرز کی پیروی کی جاتی رہی بلکہ آج بھی کی جاتی ہے۔ مکتوب نگار کی حیثیت سے غالب کا رتبہ آزاد سے بلند ہے لیکن خطوط غالب سے زیادہ مکاتیب آزاد کی پیروی کی جاتی رہی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ لائبریری میں غبار خاطر کا مقام نثر کے خانے میں نہیں، شاعری کے خانے میں ہونا چاہیے۔ غبار خاطر میں قد م قدم پر ایسے جملے ملتے ہیں جنھیں شعر کہنا زیادہ درست ہے۔ ان جملوں کو پڑھ کر قاری کے منہ سے اس طرح بے ساختہ داد نکلتی ہے جیسے غزل کے شعر سن کر ہی نکل سکتی ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
” | اس کارخانہ ہزار شیوہ و رنگ میں کتنے ہی دروازے کھولے جاتے ہیں تاکہ بند ہوں اور کتنے ہی بند کئے جاتے ہیں تاکہ کھولے جائیں۔ | “ |
غبار خاطر میں شعروں کا استعمال کثرت سے کیا گیا ہے اور اس کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ شعر یا مصرعے کو اس طرح استعمال کیا گیا ہے کہ اس سے جملہ پورا اور مطلب مکمل ہوتا ہے۔ دوسری صورت یہ کہ عبارت میں کوئی بات کہی اس پر کوئی شعر یاد آگیا تو وہ دہرا دیا۔ مولانا کے شعری اسلوب کا ایک تیسرا روپ بھی ہے وہ یہ کہ شعر سے کوئی ترکیب یا الفاظ کا مجموعہ مستعار لیا اور نثر میں استعمال کر لیا۔ خط میں ایک جگہ لکھتے ہیں:
” | کچھ ضروری نہیں کہ آپ اس ڈر سے ہمیشہ اپنا دامن سمیٹے رہیں کہ کہیں بھیگ نہ جائیں ۔ بھیگتا ہے تو بھیگنے دیجیئے لیکن آپ کے دست و بازو میں یہ طاقت ضرور ہونی چاہیے کہ جب بھی چاہا اس طرح نچوڑ کے رکھ دیا کہ آلودگی کی ایک بوند بھی باقی نہ رہی۔ | “ |
اس موقع پر ایک بہت ہی زبردست شعر درج کرتے ہیں،
تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو | دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں |
غبار خاطر میں ابوالکلام آزاد نے سات سو اشعار استعمال کیے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ اشعار غالب کے ہیں.
مولانا کے طرز تحریر میں انوکھا پن، شعریت، عالمانہ سنجیدگی اور دوسری خصوصیات مسلم ہیں۔ لیکن اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عربیت کے غلبے کی وجہ سے کہیں کہیں عبارت گرانبار نظر آتی ہے۔ ذاتی معاملات کے بیان میں انھوں نے نسبتاً آسان اور عام فہم پیرایہ بیان اختیار کیا ہے لیکن ان میں بیچ بیچ میں عربی کے اشعار، فقرے، ضرب الامثال اور نامانوس الفاظ و تراکیب آجاتے ہیں۔ جن کا صحیح لطف ایک محدود طبقہ ہی اُٹھا سکتا ہے۔ اسی لیے مشتاق احمد یوسفی ان کے متعلق لکھتے ہیں:
” | آزاد پہلے ادیب ہیں جنہوں نے اردو رسم الخط میں عربی لکھی۔ | “ |
اس کے علاوہ فارسی آمیز اردو تو غبار خاطر کے ہر صفحے پر نظر آتی ہے۔ عربی اور فارسی پر مولانا کو کامل عبور حاصل تھا۔ وہ ان زبانوں کے الفاظ کثرت سے استعمال کرتے تھے۔ ان کی تقریباً تمام تحریریں اس کی گواہ ہیں۔ غبار خاطر کا پہلا خط ایک فارسی شعر سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد تقریباً تمام خطوط میں فارسی کے الفاظ اور اشعار بکثرت ملتے ہیں۔ آزاد کے حافظے میں بے شمار عربی و فارسی شعرا کے اشعار محفوظ ہیں اور وہ ان اشعار کو اپنی تحریروں میں برمحل استعمال کرتے ہیں۔ بقول ڈاکٹر روبینہ ترین:
” | ۔۔۔۔۔وہ اشعار جن کو اگر تیر و نشتر کہا جائے تو کچھ بے جا نہ ہوگا۔ | “ |
نیز مولانا نے فارسی کے مشہور شاعروں کے شعر استعمال کیے ہیں جیسے بیدل، غالب، سعدی وغیرہ۔
مولانا کے اسلوب کا ایک اور پہلو طنز و مزاح ہے جو ایک شمشیر بے نیام ہے۔ مولانا کے اسلوب کی قوسِ قزح میں یہ رنگ بہت دل نواز اور ان کی ہمہ گیر شخصیت کو ظاہر کرنے والا ہے۔ مولانا کی یہ خصوصیت ہے کہ ان کی ذہانت بہت تیزی سے ہر شخص یا ہر چیز کا مضحک پہلو دیکھ لیتی ہے۔ اس قسم کے نظاروں کے نمونے غبار خاطر میں ملتے ہیں۔ مثلاً اپنے ایک اسیر ساتھی ڈاکٹر سید محمود کے جانوروں کو خوراک ڈالنے کے شغل کا بڑی خوبصورتی سے خاکہ اُڑایا ہے۔ مولانا کے مزاح کی یہ خصوصیت ہے کہ عامیانہ لہجہ یا بد مزاجی کا شائبہ بھی پیدا نہیں ہوتا۔ طنز میں بھی مولانا کے قلم کی نوک کتنی ہی باریک ہو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ زہریلی یا تعصب سے آلود ہے۔
اس کے علاوہ اُن کی رومانیت کی پرچھائیں بھی ہمیں نظر آتی ہیں وہ قید و بند کی صعوبتوں میں بھی اس خاص اسلوب کو ترک نہیں کرتے بلکہ اس سے ان کی عبارت میں اور بھی حسن پیدا ہو جاتا ہے۔ جبکہ موضوع خواہ کوئی بھی ہو لیکن وہ کسی نہ کسی انداز میں اپنے متعلق اشارے ضرور لے آتے ہیں۔
مولانا کا طرز تحریر اور اسلوب بیان اپنے اندر چند خصوصیات رکھتا ہے جو اردو ادب میں بڑی حد تک صرف ان کے لیے مخصوص ہے۔ مولانا کی فطری انفرادیت سے ان کا اسلوب بھی بھرپور ہے۔ وہ کوئی ایسی بات قلم سے لکھ ہی نہیں سکتے جس کا انداز انشا پردازی کے عام اصولوں سے مماثلت نہ رکھتا ہو۔ وہ ایک پیش پا افتادہ بات کو بھی اس طرح لکھیں گے جس کو کبھی کسی نے نہ لکھا ہو اور اس کے ساتھ فصاحت اور بلاغت کا اشارہ و کنایہ اور قوت اظہار ان کے لفظوں کی معنویت کو بہت بھاری بھرکم اور دلوں اور دماغوں پر اثر کرنے والا بنا دیتی ہے۔ بعض اوقات بہت سادہ حقیقتیں وہ اس انداز میں بیان کرتے ہیں کہ وہ دلوں میں اُتر جاتی ہیں۔
اگر ہم غبار خاطر کی تحریروں کا جائزہ لیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ قلم سے جو نقش و نگار بنتے ہیں وہ ایک آرٹسٹ کی روح ہیں۔ جو اپنے آپ کو کبھی روحانیت، کبھی فلسفہ، کبھی طنز و مزاح اور کبھی اذیت نواز غمگینی کے پیرائے میں ظاہر کرتے ہیں۔ اگر مولانا کے علمی انداز بیاں اور ادبی اسلوب کا تجزیہ کیا جا سکے تو معلوم ہوگا کہ مولانا آزاد کے افکار کا ایک بہاؤ ایک صحرائی چشمے کی طرح آزاد ہے۔ جب وہ بہتا ہے تو کوئی رکاوٹ اس کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی۔ اس چشمہ پر نہ تو کوئی پل باندھا جا سکتا ہے اور نہ اس کے پانی پر ملاحوں کی کشتیاں تیرتی ہیں اور نہ اس کا پانی خس و خاشاک سے آلودہ ہو سکتا ہے۔ یہ چشمہ ایک خاموش وادی کی آغوش میں جو مولانا کی فطرت ہے، بہتا چلا گیا ہے۔ اس نقطۂ نظر سے مولانا کی دوسری تحریروں پر”غبار خاطر“ قابل ترجیح ہے۔ جن کے مکتوبات غالباً اس لحاظ سے لکھے گئے تھے کہ وہ کبھی شائع نہ ہوں گے۔ اس لیے ان مکتوبات میں مولانانے اپنے افکار کے بہت سے گوشے اور جہتیں بے تکلف ظاہر کر دیے ہیں۔
پروفیسر رشید احمد صدیقی ”غبار خاظر “ کے اسلوب ِ نگارش کے بار ے میں لکھتے ہیں۔
” | غبار خاطر کا اسلوب اردو میں نامعلوم مدت تک زندہ رہے گا۔ اکثر بے اختیار جی چاہنے لگ جاتا ہے، کاش اس اسلوب کے ساتھ مولانا کچھ دن اور جئے ہوتے ، پھر ہمارے ادب میں کیسے کیسے نسرین و نسترن اپنی بہار دکھاتے اور خود مولانا کے جذبہ تخیل کی کیسی کیسی کلیاں شگفتہ ہوتیں۔ | “ |
خلاصہ یہ کہ ”غبار خاطر“ کی دلکشی کا اصل راز اس کی طرز تحریر میں ہے۔ تخلیق نثر کا یہ شہکار صدیوں تک جمال پرستوں کو انبساط و سرور کی دولت عطا کرتا اور اس کے عوض ان سے خراج تحسین وصول کرتا رہے گا۔
علامہ نیاز فتح پوری نے مولانا کے نام ایک خط میں درست ہی لکھا تھا:
” | مولانا! آپ کا اسلوب بیان میں مجھ وداعِ جاں چاہتا ہے۔ اگر آپ کی زبان میں مجھے کوئی گالیاں بھی دے تو ہل من مزید کہتا رہوں گا۔ | “ |
مولانا حسرت موہانی کا یہ شعر ابو الکلامی نثر نگاری کی کیفیت اور اثر پذیری کو بیان کرتا ہے:
جب سے دیکھی ابولکلام کی نثر | نظم حسرت میں کچھ مزا نہ رہا |
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.