علی اکبر حکمی زادہ ایران کے حوزہ علمیہ قم سے فارغ التحصیل ایک عالم دین تھے۔اور ایک مشہور کتاب اسرار ہزار سالہ کے مولف تھے۔اس کے علاوہ قم سے انھوں نے ایک رسالہ ہمایوں کے نام سے جاری کیا[1]
میرزا علی اکبر حکمی زادہ ناصحی قمی سال1897 عیسوی کو قم میں پیدا ہوئے۔آپ آیت اللہ میرزا مھدی حکمی پائین شھری کے بیٹے تھے۔آپ کے دادا بھی ایک مشہور عالم تھے جن کا نام آخوند ملا علی اکبر حکمی تھا۔دادا کے نام پر ہی آپ کا نام علی اکبر رکھاگیا۔آپ کی والدہ زھرا خانم سید محمود طالقانی کی بہن تھیں۔
علی اکبر حکمی زادہ نے میرزا علی اصغر اشعری کی بہن صدیقہ خانم سے 1927 عیسوی میں شادی کی۔جن سے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں جن کے نام یہ ہیں:
1-خدایار شہرت حکمی زادہ
2-اختر حکمی زادہ
3-شریفہ خانم حکمی زادہ
4-خسرو حکمی زادہ
5- فرشتہ خانم حکمی زادہ
علی اکبر حکمی زادہ نے قم کے مختلف علما سے دینی علوم حاصل کیں جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں:
1-شیخ مھدی مجتھد قمی
2-شیخ ناصر الدین قمی
3-شیخ محمد رضا یزدی
4-میرزا خلیل کمرہ ای
5-شیخ حسن علامہ قمی
6-شیخ محمد شاھرودی
آپ نے مقالات و کتب لکھیں جن میں سے بعض کتب کے نام یہ ہیں:
1-راہ نجات از آفات تمدن
2-دستور ازدواج
3-آئین پاک
4-حاشیہ بر کفایہ
5-اسرار ہزار سالہ
1943 عیسوی میں انھوں نے ایک کتاب اسرار ہزار سالہ[3] لکھی، جس کا جواب آیت اللہ خمینی نے کشف الاسرار کے نام سے لکھی،جب کہ آیت اللہ خالصی نے کشف الاستار کے نام سے جوابی کتاب لکھی ۔[4]
ان کی وجہ شہرت یہی کتاب تھی،
"اسرار ہزار سالہ" احمد کسروی کے مجلہ پرچم کے شمارہ 12 کے ساتھ ہی شائع ہوا۔اس کے بعد کتاب میں 6 اہم موضوعات ذکر کیے گئے ہیں جن کا بعد کے ابواب میں مفصل ذکر ہے۔
1- انسان اور خدا کے تعلقات
2- امامت
3-روحانیت یا مذہبی پیشوا
4-مملکت یا ملک
5- قانون اور شریعت
6-حدیث
[5]
اور کتاب کے آخر میں 13 سوالات اٹھائے گئے ہیں،جو اصل میں ان 15 سوالات پر مشتمل ہیں جو انھوں نے علمائے ایران کے لیے مجلہ پرچم میں شائع کیا تھا۔
یہ 13 سوالات درج ذیل ہیں:
- سوال نمبر 1: پیغمبر و اماموں سے حاجات طلب کرنا،تربت(خاک کربلا) سے شفا مانگنا اور اس پر سجدہ کرنا،اور قبروں پر یہ گنبد تعمیر کرنا اور بارگاہ بنانا کیا یہ شرک ہے یا نہیں؟ اگر یہ شرک ہے تو بتائیں اور اگر یہ شرک نہیں ہے تو میں چاہتا ہوں کہ آپ پہلے یہ بتائیں کہ شرک کا معنی کیا ہے؟ تاکہ ہم دیکھ لیں جس شرک کو جس سے اسلام و قرآن نے اعلان جنگ کیا وہ سب اور ان کاموں میں فرق کیا ہے پتہ چل سکے؟؟
- سوال نمبر 2: کیا ہم استخارہ کے ذریعے یا اس جیسے دیگر عمل کے ذریعے اللہ تعالی ٰ سے رابطہ قائم کر سکتے ہیں؟اور مستقبل کے نیک اور بد کے متعلق خبر مل سکتا ہے اس طریقے سے؟اگر اس طریقہ سے ہمیں خبر مل سکتا ہے تو پھر ہمیں اس طرح بہت سارے فوائد مالی،سیاسی اور جنگی حاصل ہونے چاہیں۔اور پوری دنیا میں سب سے زیادہ موثر یا طاقت والا ہونا چاہیے؟پس پھر کیوں اللہ تعالی نے اس کے بالکل برعکس فرمایا:
قُل لَّا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ ۚ وَلَوْ كُنتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَمَا مَسَّنِيَ السُّوءُ ۚ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ (188) ۞
اگر اس عمل سے کوئی فائدہ ایسا نہیں ملتا پھر کیوں اللہ کے نام سے،لوگوں کے مال و جان سے دھوکا بازی کرتے ہو؟؟
- سوال نمبر 3:اگر امامت کا عقیدہ مذہب کے اصول میں چوتھے نمبر پر ہے،اور جیسا کہ اکثر مفسرین کہتے ہیں کہ امامت کے متعلق بہت ساری آیات موجود ہیں،پھر اللہ تعالی نے آخر کیوں ایک ہی بار صرٰیح واضح طور پر نہیں فرمایا تاکہ ہمیشہ کے لیے وہ خونریزی اور جھگڑا جو اس موضوع کی وجہ سے پیدا ہوا،واقع ہی نہ ہوتا؟؟
- سوال نمر 4:ہر کام کا اتنا ہی اجرت ملتا ہے جتنا اس نے عمل کیا،پس جو اھادیث ایک زیارت،یا عزاداری یا اس کے ہم مثل کاموں کے متعلق ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ ایک زیارت یا ایک عزاداری برپا کرنا ایسا ہے کہ اس شخص کو ہزار پیغمبروں یا (بدر )شہیدوں کے برابر ثواب ملے گا؟ کیا ایسی احادیث درست ہیں؟
- سوال نمبر 5:یہ جو کہا جاتا ہے کہ مجتہد امام زمانہ کی غیبت میں نائب امام ہے؟کیا یہ بات درست ہے؟ اگر درست ہے پھر اس کے حدود کیا ہیں؟ کیا ولایت اور حکومت بھی اس کے حدود میں داخل ہیں؟
- سوال نمبر 6:اگر مجتہد اپنی تنخواہ کام کرکے ،یا ایک واضح و معین راستہ سے لیں تو وہ حقائق بتانے میں آزاد ہوگا، کیا ایسا بہتر ہے یا جیسے آج کل رائج ہے کہ عوام(مقلدین) سے اپنے لیے پیسے(خمس) لیتا ہے اور مجبورا اپنی کمائی کی خاطر عوام کے موافق ہی بات کرتا ہے(یعنی مرجع تقلید خود عوام کا مقلد بن گیا ہے)؟
- سوال نمر 7: یہ جو کہا جاتا ہے کہ حوکمت ظالم(طاغوت) ہے؟اس کا مطلب کیا یہ ہے کہ جب کوئی حکومت اپنے فرائض صحیح طور پر انجام نہ دیں تب وہ ظالم ہے؟ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت صرف مجتہد کے ہاتھ میں ہو تبھی درست ہے؟؟
- سوال نمبر 8: یہ جو کہا جاتا ہے کہ ٹیکس لگانا حرام ہے تواس کا مطلب کیا یہ ہے کہ ٹیکس بالکل بھی نہیں لینا چاہیے؟ یا اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیکس کے بدلے زکواۃ لینا چاہیے؟ اگر مطلب دوم درست ہے یعنی زکواۃ لینا چاہیے تو ہمارے سامنے آج کل تہران کی مثال ہے،یا مازنداران کی یا دیگر شہروں کی جو صنعتی شہر ہیں تو ہم کیسے ان سے زکواۃ لے سکتے ہیں(جب کہ شیعہ فقہ میں زکواۃ صرف 9 چیزوں پر ہی ہے)؟
- سوال نمبر 9: کیا انسانوں کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے لیے (ملکی)قانون وضع کر سکتے ہیں؟اگر جواب ہاں میں ہے تو کیا کسی ایسے قانون کی اطاعت واجب ہے یا نہیں؟اگر واجب ہے تو ایسے شخص کی سزا کیا ہوگی جو اس قانون کی خلاف ورزی کرے؟
- سوال نمبر 10:یہ مسلم ہے کہ قرآن میں بھی اور حدیث میں بھی بہت جگہ ناسخ و منسوک موجود ہیں۔اور اس کی علت بھی تغیر زمانہ ہے۔جب ایک زمانہ میں ایک قانون رہا تو بعد میں منسوخ ہوا،۔۔۔ اور یہ بھی کہا ہے کہ تمام قوانین اسلام ہر زمانے کے لیے ہے؟ ہماری خواہش ہے کہ آپ اس کے مسلم حوالے اور اس پر روشنی ڈالیں اور اس کو بیان کریں؟
- سوال نمبر 11:جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ آج ہمارے پاس جو احادیث ہیں وہ ظنی ہیں،اور انسانی عقل بھی یہ نہیں مان سکتا کہ اللہ تعالی قادر و عادل اشرف المخلوقات پر وہ چیز فرض کریں جس کے وہ مکلف نہیں؟۔اللہ نے انسانوں کو عقل کے استعمال پر زور دیا(جیسے کتب اھادیث میں عقل کو انسانوں کا نبی کیا گیا ہے ہدایت پانے کے لیے)۔۔
- سوال نمبر 12:بہت ساری احدیث موجود ہیں جو عقل و علم اور زندگی اور بلکہ بعض تو بالکل خلاف حس ہے،حالانکہ ایسی روایات کی سند بھی صحیح ہے،جیسے حدیث گائے کی سینگ پر دنیا ہونا،مچھلی(جس کی وجہ سے زلزلہ آتا ہے)،جابلق و جابلس کے متعلق روایات،یا زکواۃ (کہ صرف 9 چیزوں پر زکواۃ ہے جب کہ اس سے مالدار جو جانور نہیں رکھتے ارب پتی بھی پیسوں پر زکواۃ نہ ہونے کی وجہ سے چھوٹ جاتے ہیں بیچارے کسان جن کے پاس چند بکریاں ہو بس وہ زکواۃ دیتے ہیں)و جہاد کے متعلق بعض روایات(جیسے یمانی،سفیانی،اور خراسانی وغیرہ مزید باب علائم الظہور بحار النوار میں ہیں)،ان کا کیا کرنا چاہیے؟؟
- سوال نمبر 13:آپ کے خیال میں لوگ آج دین سے دور ہیں اس کی اصل وجہ کیا ہے؟؟
یہ کل سوالات کتاب کے آخر میں شائع کے اور یہ سوالات دراصل ان 6 موضوعات کا نچوڑ ہے جو کتاب میں موجود ہیں۔
1934 عیسوی میں انھوں نے ایک رسالہ ہمایوں کے نام سے جاری کیا جس کا مقصد معاشرے میں موجود توہمات اور روایات پسندی کو ختم کرنا نیز اسلام میں اصلاح کرنا تھا۔[6]
آپ کی وفات سنہ 4 اکتوبر 1987 کو ہوئی۔اور تہران کے بہشت زھرا قبرستان میں دفن ہوئے۔