From Wikipedia, the free encyclopedia
شیخ محمد غزالی سقا (1917ء-1996ء) ایک مسلمان امام اور عالم تھے جن کی تصانیف نے مصر کی نسلوں کو متاثر کیا۔ 94 کتب کے مصنف شیخ غزالی نے اسلام کی الہامی کتاب قرآن کریم کی جدید تفسیر کرنے والے ایوان کی توجہ اپنی جانب مبذول کی۔ پچھلے ایک عشرہ میں مصر میں ان کی تجدید ایمان اسلام کوششوں کے باعث آپ بہت سراہے گئے ہیں۔[1] ایک اور ذریعہ ان کو "دنیائے اسلام کے محترم ترین بزرگوں میں سے ایک" کہتا ہے۔[2]
الغزالی 1917ء میں محافظہ بحیرہ میں سکندریہ کی بندرگاہ کے جنوب مغربی جانب ساحل کے نكلا العنب نام کے چھوٹے سے قصبے میں پیدا ہوئے۔ آپ نے جامعہ الازہر سے 1941ء میں پہلی سند تکمیل حاصل کی۔ آپ نے ام القراء یونیورسٹی مکہ، جامعہ قطر اور امیر عبد القادر یونیورسٹی برائے علوم اسلامیہ الجیریا میں تدریس کے فرائض سر انجام دیے۔
شیخ الغزالی قاہرہ کے بین الاقوامی ادارہ برائے افکار اسلامی کی نظری مجلس کے رکن رہے۔ شیخ الغزالی نے ساٹھ سے زیادہ کتب تصنیف کیں جن میں سے کئی اک کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور کئی تمغے بھی حاصل کیے جن میں وسام الجمہوریہ (مصر) (1988ء)، شاہ فیصل ایوارڈ (1989ء) اور تمغا برائے اعلٰی کارکردگی پاکستان شامل ہیں۔
مغرب میں الغزالی سیکیولر مصنف فراغ فودا کی ہلاکت کی حمایت میں دلائل کے باعث مشہور ہیں جن میں انھوں نے مصری عدالت کو بتایا کہ ان کے مطابق "کوئی شخص جو علی الاعلان اسلامی قوانین کے مکمل نفاذ میں مزاحم ہو وہ مرتد ہوتا ہے اور جسے یا تو حکومت ورنہ پھر کوئی جان نثار فرد قتل کر سکتا ہے۔ انھوں نے حکومت کو عوام کے ایمان کی آزمائش اور مصری مسلمانوں کو توبہ کا موقع فراہم کرنے کے لیے ایک کمیٹی بنانے کی بھی تجویز دی۔ جو ایسا نہ کرتا اسے قتل کر دینا چاہیے تھا"۔[1][citation needed]
تاہم دنیائے اسلام میں الغزالی "عسکری مقصد کی قربت کے ساتھ نہیں پہچانے جاتے"۔ وہ "اکثر قومی ٹی وی چینل پر جلوہ گر ہوتے اور قاہرہ کی بڑی مساجد میں سے ایک کے منبر پر بھی جلوہ افروز ہوتے،" [1] اور 1989ء میں انھوں نے "Severely" کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی جس میں انھوں نے اپنے خیال کے مطابق "اہل حدیث" کی"بلا کیفیت اور اسلامی تحریروں کی تفسیر مخالف سوچ" پر تنقید کی۔ اس کتاب کے نتیجے میں "سعودی عرب اور مصر میں۔۔۔ کئی بڑے اجلاس" منعقد ہوئے جس میں اس کتاب پر تنقید کی گئی، سعودی ملکیتی لندن سے جاری ہونے والے اخبار الشرق الاوسط میں اس کے جواب میں طویل مضامین شائع ہوئے اور متفرق دوسری تحریروں میں الغزالی پر تنقید کی گئی اور "ان کے مقاصد اور اہلیت" پر سوالات اٹھائے گئے۔[3]
اینا بی سواگ کے مطابق فراج فواد کے قتل کے مقدمے کے دوران الغزالی نے بیان دیا کہ "جب ریاست مرتد کو سزا دینے میں ناکام ہو جاتی ہے، کسی اور کو یہ ضرور کرنا ہوتا ہے۔"[4]
جون 1995ء میں مصر کے صدر حسن مبارک کے دورۂ حبشہ کے دوارن مصری جہاد اسلامی کی جانب سے ان کے قتل کی کوشش کے بعد، "شیخ غزالی ان نمایاں شخصیات علما میں سے تھے جنھوں نے مبارک کو بخیریت واپسی کی مبارکباد کے لیے قصر صدارت کی جانب سفر کیا"۔[1]
ان کی شادی محترمہ آمنہ کاؤٹا سے ہوئی اور ان کے سات بچے تھے دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں اور مدینہ منورہ، سعودی عرب میں دفن ہوئے۔[1] آپ مصر کے معروف عالم تھے اور اپنی وفات کے بعد بھی ویسے ہی معروف رہے۔[5]
اس قطعہ میں غیر اردو زبان کا بے جا استعمال کیا گیا ہے۔ اسے اردو میں لکھنے کی ضرورت ہے۔
براہ مہربانی اسے بہتر بنانے میں تعاون فرمائیں۔ |
ان کی کتابوں میں سے کچھ یہ ہیں:[6][citation needed]
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.