From Wikipedia, the free encyclopedia
خوشاب، دریائے جہلم کے مغربی کنارے پر آباد صوبہ پنجاب کا ایک تاریخی قدیمی قطعہ ارض ہے۔ سرزمین خوشاب دریا، سرسبز میدان، کوہسار اورصحرا سے مزین ہے۔ صدیوں پرانے تاریخی شہر خوشاب کی تاریخ موہنجوڈرو اور ہڑپہ سے بھی پرانی ہے۔ خوشاب فارسی کے دو الفاظ ’’خوش‘‘ اور ’’ آب‘‘ کا مجموعہ ہے جس کے معنی ’’خوش یعنی تسکین خوشی مقامی لفظ اور آب کے معنی پانی کے ہیں۔ سینہ بہ سینہ چلتی روایات کے مطابق یہاں پانچ ہزار سال پرانی انڈس ویلی تہذیب، گندھارا، ٹیکسلا جیسی تہذیب و تمدن کی آباد شدہ دیہاتوں میں سے ایک دیہات جہاں ویدک سنسکرت اور ہند آریائی زبان کے لہجے بولے جاتے تھے۔ مقدونی حملہ آور سکندر اعظم، عرب ہون، تاتاری حملہ آور اور کئیی بادشاہ وارد ہوئے اور جس نے بھی یہاں کا پانی پیا اس کے شیریں پن کی تعریف کی۔ یہ روایات امیر تیمور، محمود غزنوی، بابر اور شیر شاہ سوری کے ساتھ بالخصوص منسوب ہیں۔ تاہم شیر شاہ سوری کے حوالے سے منسوب روایت کافی مستند اور مضبوط سمجھی جاتی ہے کہ جب اس مشہور مسلم فاتح کا اس علاقہ سے گزر ہوا اور پڑاؤ کے دوران جب اس نے دریا ئے جہلم کا پانی پیا تو بے اختیار کہہ اٹھا۔۔۔’ خوش آب‘‘۔۔۔۔ اوریوں یہ الفا ظ زبان زدِعام ہو کر اس علاقے کو ایک خوب صورت نام دے گئے۔
خوشاب | |
---|---|
انتظامی تقسیم | |
ملک | پاکستان (14 اگست 1947–) برطانوی ہند (1858–14 اگست 1947) [1] |
دار الحکومت برائے | |
تقسیم اعلیٰ | تحصیل خوشاب |
متناسقات | 32°17′30″N 72°21′00″E |
آبادی | |
کل آبادی | 110868 (2017) |
مزید معلومات | |
رمزِ ڈاک | 41000 |
فون کوڈ | 0454 |
قابل ذکر | |
جیو رمز | 1173687 |
درستی - ترمیم |
تاریخی شہر ہونے کے حوالے سے صحیح معنوں میں اس کی تاریخ بیان کرنا مشکل ہے شہنشائے ہیں مغل بادشاہ بابر میں اپنی سوانح حیات میں تزک بابری مین اس ح سے پندروی صدی عیسوی میں اس کا ذکر کیا ہے
شیر شاہ سوری نے اس شہر کو سنوارنے اور اس کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ مرکزی عید گاہ، جامع مسجد مین بازار، شہر پناہ کے دروازے اور فصیل اس زمانے کی اہم تعمیرات میں سے ہیں۔ ایک روایت کے مطابق شہر خوشاب1503عیسوی میں آباد ہوا جبکہ اس کے گرد فصیل 1593میں مکمل ہوئی۔ 1809میں راجا رنجیت سنگھ نے خوشاب پر قبضہ کر لیا۔محمد شاہ کے زمانے میں خوشاب کا گورنر نواب احمد یارتھا جس کا مقبرہ خوشاب میں موجود ہے۔ دریائے جہلم کے کنارے آباد یہ شہر لا تعداد مرتبہ سیلابوں کی زد میں آکر تباہ ہوا۔ بالخصوص 1849اور1893میں دریائے جہلم میں آنے والی طغیانیوں میں سردار جعفر خان کا قلعہ، تارا چند اور نواب احمد خان کے باغات، فصیل اور دروازوں کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ شہرپناہ کی فصیل کو سہ بارتعمیر کیا گیا۔ اول مرتبہ شیر شاہ سوری نے، دوسری مرتبہ سردار لعل خان بلوچ نے 1761میں کچی فصیل کو پختہ بنا دیا جبکہ تیسری مرتبہ 1866میں انگریز ڈپٹی کمشنر کیپٹن ڈیوس نے از سر نو کچھ تبدیلیوں کے ساتھ شہر کا نقشہ بنوا کر فصیل کو مکمل کیا۔ اس باردیوار شہر میں چار بڑے دروازے، مشرق کی جانب کابلی گیٹ، مغرب کی جانب لاہوری گیٹ، شمال کی جانب جہلمی گیٹ اور جنوب کی جانب ملتانی گیٹ تعمیر کیے گئے۔1865میں ڈپٹی کمشنر کیپٹن ڈیوس نے تیس فٹ چوڑا اور تقریباََ ڈیڑھ کلومیٹر لمبا بازار بنوایا۔ اسی بازار خوشاب کے عین آغاز پر موجود کابلی گیٹ اپنی قدیمی شان و شوکت کا پرشکوہ منظر کچھ اس طرح سے پیش کرتا ہے کہ جیسے آپ صدیوں پرانے شہر خوشاب میں داخل ہو رہے ہوں۔ حکومت انگلشیہ نے اس شہر کا نقشہ صلیب کی طرز پر بنایا۔1866میں کابلی گیٹ مکمل ہوا جس میں ڈاکخانہ اور پولیس چوکی قائم کی گئی۔ اور یہ شہر کی آخری حد تھی، جبکہ دوسرے سرے پر لاہوری گیٹ تھا جہاں پر ایک بڑا پتن بھی تھا۔1945 تک دریائے جہلم شہر کی دیواروں کے ساتھ ساتھ بہتا تھا لیکن فی زمانہ دریا شہر سے دور ہوتا چلا گیا اور اب تقریباََ ڈیڑھ میل دور مشرق کی جانب بہہ رہا ہے۔1700 ء میں خوشاب جہلم کمشنری کے تحت تھا اور اس کا صدر مقام شاہ پور تھا۔ تزک بابری میں بابر نے خوشاب کا ذکر کچھ اس طرح کیا ہے کہ: ’’جمعہ کا دن تھا اور خوشاب کے باسیوں نے میری خدمت میں ایک وفد بھیجا جس کے جواب میں میں نے شاہ حسین بن شاہ شجاع ارغوان کا انتخاب کیا کہ وہ خوشاب جا کر وہاں کے لوگوں سے بات چیت کرے۔۔.۔‘‘ ترک جہانگیری میں بھی خوشاب کا ذکر کچھ اس طرح سے ہے : ’’یہ سر سبز و شاداب سرزمین ہے جس کی آمدن 30لاکھ دام ہے۔ ‘‘ خوشاب سے ضلع خوشاب تک 1857کی جنگ آزادی سے صرف چار سال قبل1853میں تاج برطانیہ کے تحت اسے ٹاؤن کمیٹی کا درجہ ملا۔ بعد ازاں اسے میونسپل کمیٹی بنا دیا گیا۔1867ء میں خوشاب کو تحصیل کا درجہ دیا گیا، 1947ء میں قیام پاکستان کے وقت خوشاب ضلع سرگو دھا کی تحصیل تھا، اور 1982میں خوشاب کو الگ ضلع کا درجہ دے دیا گیا جب اسے ضلع کا درجہ ملاتو یہ دو تحصیلوں خوشاب اور نور پور تھل پر مشتمل تھا۔ اب اس میں تحصیل قائدآ بادکا اضافہ ہو چکا ہے یو ں ضلع خوشاب چار تحصیلوں خوشاب، نور پور تھل، قائد آباد اور ایک تحصیل نو شہرہ پر مشتمل ہے۔
اس کی انفرادیت اس بات میں ہے کہ یہاں سرسبز میدان، پہاڑ اور صحرائی علاقے ہیں۔ ضلع خوشاب کے لوگ محنتی اور زراعت پیشہ ہیں۔ یہاں کی زیادہ تر آبادیاعوان، جوئیہ اور بلوچ قبائل سے تعلق رکھتی ہے۔ یہاں کے اکثر لوگ فوج میں شمولیت کو باقی پیشوں پر ترجیح دیتے ہیں۔
وادی سون، اچھالی جھیل، کھبیکی جھیل، کنٹی گارڈن، میلہ منڈی خوشاب، میلہ نور پور تھل، میلہ سید المعروف، میلہ بابا چورا فقیر رح اوکھلی موہلہ، عرس بانی اوکھلی موہلہ بابا شیخ مہر علی رح، عرس بابا میاں نانگہ رح اوکھلی موہلہ، قبر اصحابی رسول اوکھلی موہلہ، اوکھلی موہلہ کا تاریخی قبرستان، عرس بابا فقیر اصحاب اوکھلی موہلہ، جامع مسجد گلزار مدینہ (ککڑانوالی) اوکھلی موہلہ، مرکزی جامع مسجد بلال اوکھلی موہلہ
سکیسر بیس، پاکستان اٹامک انرجی کمشن پلانٹ گروٹ
خوشاب بزرگوں کی سر زمین ہے، سب سے زیادہ مشہور مزارات میں دربار بادشاہوں اور دربار سیدالمعروف شامل ہیں، دربار بانی اوکھلی موہلہ بابا شیخ مہر علی رح، دربار بابا میاں نانگہ رح اوکھلی موہلہ، قبر اصحابی رسول اوکھلی موہلہ شامل ہیں۔
ہمہ جہت جغرافیائی خدوخال: تحصیل خوشاب اور قائد آباد میدانی، تحصیل نوشہرہ پہاڑی اور تحصیل نور پور تھل صحرائی علاقہ ہے۔ تحصیل قائد آباد کا واحد گاؤں اوکھلی موہلہ ہے جو کوہ کے علاوہ تمام تر زمینوں سے گھرا ہوا ہے۔اس میں ریتلی، میدانی، چکنی، پھتریلی اور رتی وغیرہ شامل ہیں۔۔
خوشاب کی سب سے اہم سوغات ڈھوڈا (مٹھائی) ہے۔ یہ ایک مٹھائی ہے جو یہاں نسل در نسل تیار کی جاتی ہے اور اپنے ذائقہ میں بے مثال ہے۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.