حشاشین کے بانی From Wikipedia, the free encyclopedia
نزاریہ فرقہ کا اصل بانی بلاد عجم یعنی ایران کا بہت بڑا داعی بانی شیخ الجبل حسن بن صباح۔ اس نے اپنی تحریک کو ایسی ترقی دی، جس کے باعث دوسری اسلامی قوتوں سے مقابلہ کرنے لگا۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو درست ہوگا کہ اس نے اور اس کے جانشینوں نے ایسی دھاک بیٹھائی کہ اس زمانے کے اسلامی سلاطین ان سے تھراتے تھے۔
اس مضمون میں مزید حوالہ جات کی ضرورت ہے تاکہ مضمون میں تحریر کردہ معلومات کی تصدیق کی جاسکے۔ |
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
حسن بن صباح کا پورا نام حسن بن علی بن محمد بن جعفر بن حسین بن الصباح الحمیری تھا۔ یہ ایرانی تھا اور اس نے اس زمانے کے رواج کے مطابق اپنے آپ کو ایک عرب الحمیری خاندان سے منسوب کیا تھا۔ لیکن اسے یہ بات پسند نہیں تھی کہ لوگ اس کا نسب بیان کریں۔ وہ اپنے مریدوں سے کہا کرتا تھا مجھے اپنے امام کا مخلص غلام کہلایا جانا زیادہ پسند ہے کہ بہ نسبت اس کے میں ان کا ناخلف لڑکا کہلاؤں ۔
اس کا باپ کوفہ سے قم آیا جہاں حسن پیدا ہوا۔ سات سال کی عمر سے ہی اسے تحصیل علم شوق تھا۔ اٹھارہ سال کی عمر تک اس نے ریاضی، نجوم اور سحر وغیرہ مختلف علوم حاصل کیے۔ اس وقت تک اس کا مذہب اپنے باپ کی طرح اسماعیلی شش امامی تھا۔
حسن بن صباح ملاقاتیں فاطمی داعیوں میں سے پہلے ناصر خسرو، حجت خراسان اور پھر امیر حزاب ہوئیں۔ اس نے ان کے اثرات قبول کیے۔ امیر حزاب سے اس کے کئی طولانی مذہبی مباحثے ہوئے۔ اس سے حسن بن صباح کے اعتقاد میں لغرش پیدا ہو گئی۔ گو اس کو اسمعیلی دعوت کی صحت کا پورا یقین نہ ہوا۔ لیکن ایک بیماری سے شفا پانے کے بعد جس سے اس کو نجات پانے کی کوئی امید نہ تھی۔ وہ اسمعیلی مذہب کی طرف زیادہ مائل ہو گیا اور دو اسمعیلی داعیوں ابو نجم سراج اور مومن سے ملا۔ یہ داعی ایک بڑے رہبر شیخ احمد بن عبد المالک بن عطاش مالک حلقہ اصفہان کے حکم سے فارس میں اسمعیلی دعوت کی تبلغ کرتے تھے۔ ان میں سے مومن نے دیکھا کہ ابن صباح بڑا ہوشیار اور زبردست شخصیت والا ہے تو اس نے پس و پیش کرتے ہوئے مستنصر کی بیعت لی ۔
ماہ رمضان 464 ہجری میں ابن عطاش جس کے بحر ( یعنی علاقہ تبلیغ ) میں اصفہان اور آذر بائیجان تھے رے پہنچا اور اسمعیلی دعوت میں ابن صباح کی شرکت قبول کرتے ہوئے اسے مصر جانے کا حکم دیا۔ اس بنا پر 467 ہجری میں وہ اصفہان پہنچا۔ جہاں سے دو سال ابن عطاش کی نیابت کرنے کے بعد آذر بائیجان اور دمشق سے ہوتا ہوا 471 ہجری میں مصر پہنچا ۔
دوسرا سبب اس کے مصر جانے کا یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ابو مسلم جو شہر رے کا والی اور نظام المک کا داماد تھا۔ اس پر الزم لگایا کہ وہ مصر کے اسمعیلی داعیوں سے ملا کرتا ہے۔ بہر حال جب وہ مصر پہنچا تو مصر کے داعی الدعاۃ اور دوسرے مشہور لوگوں نے بہت ہی اعزاز سے اس کا استقبال کیا۔ خلیفہ مستنصر نے بھی اسے بہت کچھ انعام و اکرام دیا۔ مگر اسے بذات خود خلیفہ سے ملنے کی اجازت نہ تھی ۔
اگرچہ وہ اٹھارہ مہینے تک قاہرہ میں ٹھہرا رہا۔ اس مدت کے بعد اسے مجبوراً مصر چھوڑنا پڑا۔ کیوں کہ مستنصر کے وزیر بدر الجمالی اور اس کے بڑے بیٹے نزار کے درمیان، جس کی حسن بن صباح حمایت کرتا تھا، ناخشگوار تعقات تھے۔ یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ بدر الجمالی نے حسن کو مصر سے نکلوا دیا تاکہ نزار کی امامت کا کوئی حامی نہ ملے۔ غرض 472 ہجری میں ابن صباح اسکندریہ سے روانہ ہوا اور 473 ہجری میں اصفہان پہنچا۔ اس وقت سے وہ بلادیز، کرمان طبرستان، دامغان اور فارس کے دوسرے شہروں میں نزار کے نام سے یہ دعوت کرنے لگا کہ مستنصر کے بعد نزار امامت کا مالک ہے۔ نظام الملک کو اطلاع ملنے پر اپنے داماد ابومسلم کو اس کی گرفتاری کا حکم دیا۔ مگر حسن بن صباح ہاتھ نہیں آیا۔
یہ وہ دور تھا کہ اس وقت قرامطہ کی قوت عراق و شام میں ٹوٹ چکی تھی۔ لیکن ان کے ہم مذہب ایران وغیرہ میں پھیل چکے تھے اور انھوں نے اپنی تحریک کو خفیہ طور پر جاری رکھا ہوا تھا۔ اس طرح کا ماحول حسن بن صباح کے لیے بہت ساز گار تھا۔ نزار کے نام نے ان کی تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی تھی۔ اب یہ لوک اس کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے۔ لوٹ مار کا سلسلہ پھر سے شروع کر دیا۔ ابتدا میں حسن بن صباح نے اپنی سرگرمیاں مازندران کی وادیوں میں جہاں بابک خرمی اور اس کے ہم مذہب رہتے تھے شروع کیں اور جلد ہی فارس کے قلعہ پر قبضہ کر لیا۔ پھر اصفہان کے قلعے شاہ در پر ان کا قبضہ ہو گیا۔
اس وقت بغداد میں خلیفہ عباسی مقتدی باللہ تھا۔ لیکن حکومت ملک شاہ سلجوقی کے ہاتھ میں تھی۔ حسن بن صباح نے اس کے زمانے میں قوت حاصل کی اور ملک شاہ کے مشہور وزیر نظام الملک کو نزاریوں نے 484 ہجری میں قتل کر دیا۔ ان کی قوت توڑنے کے لیے ملک شاہ نے دو دفعہ لشکر بھیجا، مگر اسے کوئی نمایاں کامیابی نہیں ہوئی۔ 485 ہجری میں ملک شاہ کے انتقال کے بعد اس کے خاندان کے باہمی جھگڑوں سے نزاریوں کا زور بڑھ گیا۔ اس کی بیوی خاتون جلالیہ کی رائے سے خلیفہ نے اس کے چھوٹے بیٹے محمود کو سلطنت دے کر ناصر الدنیا والدین کے لقب سے سرفراز کیا۔ لیکن اس کے بڑے بیٹے برکیارق نے حکومت چھین لی اور رکن الدین کا لقب اختیار کیا۔ محمود اور اس کی ماں نے اصفہان میں پناہ لی۔ برکیارق نے نزاریوں کی مدد سے اصفہان کا محاصرہ کیا اور محمود کو بھگا دیا۔ لیکن اصفہان پر نزاریوں کا قبضہ ہو گیا۔ نزاریوں نے اپنی عادت کے مطابق لوٹ مار شروع کردی۔ شہر کے باشندے ان کے مظالم سے تنگ آ گئے۔ آخر کار اصفہانیوں نے نزاریوں سے خوب انتقام لیا اور ان کے کئی سرداروں کو مار ڈالا۔ اس کے بعد حسن بن صباح قزوین پہنچا۔
بحیرہ قزوین کے قریب قلعہ الموت واقع ہے۔ اس مقام کے آس پاس رہنے والوں سے حسن بن صباح نے دوستی کرلی اور ان پر اپنے زہد و تقویٰ کا اثر ڈالا۔ کہا جاتا ہے یہ ہمیشہ ایک کمبل اوڑھے رہتا تھا اور بہت سادہ زندگی بسر کرتا تھا۔ یہاں کے اکثر لوگ اس کے پیرو ہو گئے تھے۔ اس قلعے کا مالک ایک سادہ لوح علوی تھا۔ ہمیشہ اس کے پاس بیٹھا رہتا تھا اور اس سے برکت حاصل کرتا تھا۔ جب حسن اپنا معاملہ مستحکم کرچکا تو علوی کے پاس گیا اور اس سے کہا تو قلعے سے نکل جا۔ علوی مسکرایا اور اسے دل لگی سمجھا۔ حسن نے اپنے چند پیروؤں کو حکم دیا کہ علوی کو قلعے سے نکال باہر کریں۔ انھوں نے اس کے حکم کی تعمیل کی اور کچھ مال دے کر اسے قلعے سے نکال دیا۔ اب قلعے پر حسن کا قبضہ ہو گیا۔ قلعۃ الموت کو مستقرر بنا کر حسن بن صباح نے اپنی دعوت کی تنظیم نو کی اور اس کی تبلیغ شروع کردی۔ دعوت کا وہی نظام قائم کیا جو مصر میں رائج تھا۔ صرف چند حدود ( ارکان ) مثلاً رفیق، لاحق اور فدائی کا اضافہ کیا ۔
فدائیوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ حکم بجا لانے میں لاثانی تھے۔ اپنے سربراہ یعنی شیخ الجبل کے ایک اشارے پر اپنی جان دینے کے لیے تیار ہو جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ سیاسی راستہ صاف کرنے کے لیے حسن بن صباح نے اپنے فدائیوں سے کئی مضبوط اور بہادر حکماء کو ان کے خواب گاہوں میں قتل کروایا۔ قلعہ الموت میں فدائیوں کو ہتھیار استعمال کرنے کا فن سکھایا جاتا تھا۔ یہ سپاہی حسن کے حکم کی بے عذر آنکھیں بند کرکے تعمیل کرتے تھے۔ جس کے قتل کا اشارہ ہوتا اس کے پاس بھیس بدل کر جاتے اور اس کے مزاج میں رسوخ پیدا کرتے تھے۔ اس معتمد علیہ بنتے اور موقع پاتے ہی اس کا کام تمام کر دیتے تھے۔ نامعلوم تاریخ کے مطابق ان سیاسی قتل کے کام کی ترتیب دینے کے لیے ایک جنت بنائی گئی تھی۔ پہلے وہ حشیش (بھنگ ) کے اثر سے اس طرح بے ہوش کر دیے جاتے تھے کہ ان کے دل میں کسی منشی چیز کا گمان بھی نہ ہوتا تھا۔ بے ہوش ہونے کے بعد خاص ذریعوں سے اور راستوں سے وہ جنت میں پہنچائے جاتے۔ جہاں پہنچتے ہی وہ ہوش رہا اور دلستان حوروں کی آغوش شوق میں آنکھ کھولتے اور اپنے آپ کو ایک ایسے عالم میں پاتے، جہاں کی خوشیاں اور مسرتیں ان کے حوصلے اور ان کے خیال سے بالا تر ہوتیں۔ پر فضا وادیوں، روح افزا آبشاروں، جان بخش باغوں اور فریب نظر مرغ زاروں میں سیر کرتے، حوروں کی صحبت ان کی دلستانی کرتی، مے ارغونی میں لبریز جام غالباً یہاں شراب طہور کا نام لے کر دیے جاتے ہوں گے۔ انھیں دنیاوی افکار سے بے پروا کردیتے۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ حسن کے پاس پہنچائے جاتے۔ جہاں آنکھ کھول کر وہ اپنے کو شیخ کے قدموں پر پاتے۔ ان کو پھر جنت میں پہنچنے کی امید دلائی جاتی اور ان لوگوں سے جنت کی چاٹ پر یہ ظالمانہ کام لیے جاتے۔ بڑے بڑے امرا انہی کے خنجروں سے قتل ہوئے اور انہی فدائیوں نے نظام الملک کی بھی جان لی۔ 1256ء میں جنگ الموت میں منگولوں کے ہاتھوں قلعۂ الموت کی تباہی کے15 برس بعد مشہور اطالوی سیاح مارکو پولو 1272 میں چین جاتے ہوئے اس علاقے سے گذرا۔ اپنے مشہور زمانے سفرنامے میں مارکو پولو نے حسن بن صباح کی مصنوعی جنت کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے:
'شیخ الجبال نے دو پہاڑوں کے درمیان واقع وادی میں ایک وسیع و عریض اور خوشنما باغ بنوایا ہے جس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ اس میں ہر قسم کے پھل پائے جاتے ہیں اور تصور سے باہر حسین محلات اور خیمے ہیں جن پر سونے کے ورق چڑھے ہیں اور ان میں نفیس تصاویر ہیں۔ اس باغ میں چھوٹی چھوٹی ندیاں ہیں جن میں شراب، دودھ، شہد اور پانی بہتا ہے اور یہاں دنیا کی حسین ترین دوشیزائیں ہیں جو ہر طرح کے ساز بجاتی ہیں اور وہ حسین نغمے گاتی ہیں اور دل لبھانے والے رقص کرتی ہیں۔' مارکو پولو مزید لکھتے ہیں کہ 12 سے 20 برس عمر کے نوجوانوں کو نشہ پلا کر اس باغ میں لایا جاتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جنت میں پہنچ گئے ہیں۔ اس کے بعد جب انھیں بے ہوش کر کے اس فردوسِ بریں سے نکالا جاتا ہے تو وہ اپنی زندگی کی پروا کیے بغیر کسی کو بھی قتل کرنے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔
جب کہ حسن بن صباح کے حامیوں کا موقف ہے کہ جنگ الموت کے بعد اس قلعے پر قابض منگولوں کے مشہور منشی عطا ملک جوینی نے بھی اپنی اس کتاب تاریخ جہانگشای میں اس جنت کا کہیں ذکر نہیں کیا ہے جس کو تاریخ الموت کے حوالے سے ایک جامع اور مستند کتاب سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے یہ ممکن ہے کہ مخالفین نے عوام کو شیخ الجبل حسن بن صباح سے بدظن کروانے کے لیے یہ جھوٹی حکایت بنالی ہو کیونکہ اس جنت کے جن جن حصوں کا ذکر کیا گیا ہے ان تمام کا قلعہ الموت میں موجود ہونا کسی بھی ذی شعور عقل کو مائل نہیں کر سکتا کیونکہ قلعہ الموت ایک پہاڑی کے اوپر چھوٹا سا قلعہ تھا جس میں مشکل سے شیخ الجبل اور ان کے فدائیوں کے لیے رہنے کی جگہ میسر تھی۔
ملک شاہ کے بعد سلطان سنجر نے حسن بن صباح کا مقابلہ کیا۔ مگر حسن بن صباح نے نہایت چالاکی سے اسے صلح پر راضی کر لیا۔ اس کے بعد یہ ایران کے شہروں کے بعد رفتہ رفتہ شام کے بعض مقاموں میں بھی حسن کے ماننے والے پھیل گئے۔ حسن بن صاح نے ایک طویل عمرپائی اور قلعه الموت میں ہی اس کی موت واقع ہوئی۔ اس کی موت کے بعد کیا بزرگ اس کا جانشین بنا جو اس کا بیٹا بتایا جاتا ہے ۔
رینی ویسو کا کہنا ہے کہ چند خاص غلو آمیز باتوں کی وجہ سے متعصب مسلمان ان (اسمعیلی) عقیدوں سے متنفر ہو گئے اور انھیں ناقابل قبول قرار دیا۔ اس بات کا اعتراف کرنا چاہیے کہ بہت سے اسمعیلی اصول فرقہ متزلہ سے اخذ کیے گئے، جو منجلہ اور مسائل کے خدا کے اوصاف بھی تسلیم نہیں کرتا اور عقیدہ اختیار کا قائل ہے۔ باوجود اس جدت کی کمی سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کے متعلق مغربی علمائ کے فیصلوں میں سختی کی گئی۔ ایک کو دوسرے کے ساتھ خلط ملط کرکے سب پر ناپسندیگی، لعنت اور پھٹکار کا ایک ایسا حکم لگانا جیسا کہ مسلمان عالوں کا طرز عمل رہا ہے یقناً کسی طرح بھی درست نہیں ہو سکتا ہے۔ وہ اسمٰعیلیوں کی شاخ بھی جس سے حشاشین (Assassins) کا لفظ مشتق ہے اور جس پر وہ لفظ ابتدا میں اطلاق کیا گیا کسی طرح پہلا فرقہ نہ تھا جس نے ایک مظلوم چھوٹی جماعت کا یہ ہتیار اپنے مقابلے میں استعمال کیا گیا اور خود شیخ الجبل (حسن بن صباح) اتنا بدصورت نہیں تھا جتنی اس کی بھیانک تصویر پیش کی جاتی ہے ۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.