From Wikipedia, the free encyclopedia
قاضی ابو عبد اللہ اسد بن فرات (پیدائش:759ء— وفات: جولائی 828ء) افریقیہ سے تعلق رکھنے والے ماہر الہٰیات، مجتہد، عالم اور فقیہ تھے۔
قاضی اسد کی کنیت ابو عبد اللہ، والد کا نام فرات اور دادا کا نام سنان تھا۔ قاضی اسد مزاحاً کہا کرتے تھے کہ: ’’میں اسد (شیر) ہوں‘ جو وحشی جانوروں میں سب سے بہتر ہے، میرے والد فرات ہیں جو دریاؤں میں سب سے بہتر ہے اور میرے دادا سنان (نیزے کی اَنی) تھے جو ہتھیاروں میں بہترین ہے۔‘‘ قاضی اسد کا خاندان بنو سُلَیم بن قَیس کے آزاد کردہ غلاموں میں سے تھا اور اُن کا آبائی وطن نیشاپور تھا اور ابھی یہ شکم مادر میں ہی تھے کہ اِن کے والد ہجرت کرکے بمقام حران (دیارِ ابی بکر) میں آئے اور یہیں مقیم ہوئے۔
حران میں ہی 142ھ میں قاضی اسد کی پیدائش ہوئی۔قاضی اسد کے سالِ پیدائش میں اختلافی بیانات بھی موجود ہیں کہ اُن کی پیدائش 143ھ یا 145ھ میں ہوئی مگر متن کی روایت خود قاضی بن اسد کی زبان سے مروی ہے۔[1]
قاضی اسد کا آبائی پیشہ سپہ گری تھا۔ ابھی دو سال کے ہی تھے کہ اپنے والد فرات بن سنان کے ہمراہ 144ھ میں محمد بن اشعث کی فوج کے ہمراہ مسلم افریقہ آئے۔ قیروان میں پانچ سال کی عمر تک مقیم رہے، پھر اِن کے والد نے تیونس میں قیام اختیار کیا اور وہاں نو سال تک مقیم ہوئے۔
بعد ازاں اِس کے بعد اُن کے دینی علوم کی تکمیل کا وقت آیا۔ اُن دِنوں تیونس میں علی بن زیاد کی مسندِ درس حدیث بچھی ہوئی تھی۔ قاضی اسد علی بن زیاد کی مسندِ درس کی طرف رجوع کرنے لگے اور اُن سے علم حدیث و فقہ کی تحصیل کی۔ موطأ امام مالک پہلی بار امام علی بن زیاد سے پڑھی۔ 176ھ میں تکمیل علم کے لیے مشرق کے سفر پر روانہ ہوئے اور مدینہ منورہ پہنچے اور امام مالک کے حلقۂ درس میں شریک ہوئے۔ امام مالک کے درس کا طریقہ یہ تھا کہ وہ موطأ کے درس میں طلبہ کے سوالات کے جوابات دیتے تھے جنہیں تلامذہ لکھتے جاتے تھے۔ عبد اللہ بن وہب اور عبد الرحمٰن بن قاسم امام مالک کے نامور تلامذہ میں سے تھے اور اِن کی حیثیت امام ابوحنیفہ کے اصحاب امام ابو یوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی کی سی تھی اور یہی دونوں کے جوابات کو لکھا کرتے تھے۔امام مالک فطرتاً قیل و قال کو پسند نہیں کرتے تھے اور سہل و سادہ طور پر محض روایات کی بنیاد پر جواب دیتے تھے۔ اِسی وجہ سے تلامذہ اپنے طالب علمانہ خدشاتِ دِلی کو پیش کرتے ہوئے جھجھکتے تھے۔ جب اسد امام مالک کی مجلس میں شریک ہوئے تو ابن قاسم وغیرہ نے اُن کے ذریعہ سے اپنے خدشات زائل کرنا چاہے اور انھیں سوال در سوال سکھاتے تاکہ وہ امام مالک کے سامنے یہ سوالات پیش کرسکیں۔بالآخر امام مالک نے اسد کو بھی قیل و قال کی ممانعت کردی اور یہ پورا واقعہ خود قاضی اسد کی زبانی یوں ہے کہ: امام مالک کے اصحاب قاسم وغیرہ مجھے سکھاتے کہ فلاں مسئلہ کے متعلق اُن سے دریافت کروں۔چنانچہ جب اُن سے سوال کرتا تو وہ جواب دے دیتے۔ اِس کے بعد میرے ساتھی مجھے پھر یوں سکھانے لگے کہ: اگر یہ ایسا ہے تو یوں ایسا ہوگا اور یہ یوں ہے تو یہ یوں ہوگا۔ اِس پر میں اِسی طریقہ سے سوالات کرنے لگا۔ایک دِن وہ مجھ سے عاجز آگئے اور فرمانے لگے کہ سلسلہ در سلسلہ چھیڑ رکھا ہے، اگر ایسا ہو تو یہ ایسا ہے اور ایسا ہو تو ۔۔۔۔ اگر تم یہ چاہتے ہو تو تمھارے لیے عراق کا راستہ ہے۔‘‘ (یعنی اگر قیل و قال ہی کرنا لازم ہے تو عراق روانہ ہوجاؤ تاکہ وہاں کے فقہا سے قیل و قال کرسکو)۔ اِس واقعہ کے بعد میں نے اپنے ساتھیوں سے کہہ دیا کہ تم لوگ میرا سہارا پکڑتے ہو، میں آئندہ اِس قسم کی حرکت نہ کروں گا۔[1]
امام مالک سے موطأ سبقاً سبقاً پڑھنے کے بعد کسی دوسری کتاب کے پڑھنے کا شوق ظاہر کیا تو امام مالک نے فرمایا: ’’وہی تمھارے لیے بھی کافی ہے جو میں دوسروں کو دے رہا ہوں۔‘‘ (یعنی تم بھی وہی پڑھو جو سب پڑھ رہے ہیں)۔ جب مدینہ منورہ میں امام مالک کی مسندِ درس سے سلسلہ تعلیم کی تکمیل ہو گئی تو انھیں عراق میں فقہ حنفی کی تحصیل کا خیال پیدا ہوا اور پھر امام مالک سے رخصت ہونے کے لیے اُن کی خدمت میں حاضر ہوئے اور امام مالک نے خاص التفات سے انھیں رخصت کیا۔ خود قاضی اسد کہتے ہیں کہ: ’’میں اور حارث بن اسد قفصی اور غالب بن مہدی امام مالک کی خدمت میں رخصت ہونے کے لیے حاضر ہوئے۔میرے دونوں ساتھی مجھ سے پہلے باریاب ہوئے اور امام مالک سے درخواست کی کہ ہمیں کچھ وصیت فرمائیے۔انھوں نے اُن دونوں کو وصیت کی۔ اِس کے بعد میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ: میں اللہ تعالیٰ سے تمھارے لیے تقویٰ، قرآن اور اُس کی اُمت کی خیرخواہی کی وصیت کرتا ہوں۔‘‘ اِس کے بعد جب ہم لوگ باہر نکلے تو میرے ساتھیوں نے مجھ سے کہا: اے ابو عبد اللہ! واللہ! انھوں نے تمھیں اپنی وصیت میں ہم لوگوں سے زیادہ عطا کیا۔ راوی سلیمان کا قول ہے کہ امام مالک رخصت کرتے وقت اپنے تلامذہ کو صرف ’’تقویٰ اللہ‘‘ کی وصیت فرماتے تھے۔امام مالک سے تحصیل علم کے بعد قاضی اسد عراق چلے گئے تاکہ وہاں فقہ حنفی کی تحصیل کرسکیں۔
مدینہ منورہ کے بعد قاضی اسد نے عراق میں جید علمائے کرام اور شیوخ سے تحصیل علم کیا۔ عراق میں امام ابوحنیفہ کے تلامذہ کی مسندِہائے درس میں شریک ہوئے اور علاوہ ازیں امام ابو یوسف، امام محمد بن حسن شیبانی اور اسد بن عمرو کے حلقوں میں شریک ہوئے۔دیگر ممتاز فقہائے احناف سے بھی علم فقہ کی تحصیل کی۔ قاضی اسد کو سب سے زیادہ امام محمد بن حسن شیبانی کی خدمت میں نمایاں اختصاص ہوا اور اُن کی اِجازت سے اُن کے عام درس میں شریک ہونے کے کے علاوہ شب کے وقت بھی اُن سے پڑھا کرتے تھے اور پھر اِن کی غریب الوطنی معلوم ہوجانے پر امام محمد بن حسن شیبانی نے اِن کی مالی امداد بھی جاری رکھی۔ یہ واقعات خود قاضی اسد نے سلیمان بن سالم کو سنائے تھے کہ: ’’میں نے امام محمد بن حسن شیبانی سے کہا کہ : میں پردیسی ہوں اور آپ سے فقہ و حدیث کا بہت کم سرمایہ جمع کرسکا ہوں، کیونکہ آپ کے تلامذہ کی تعداد زیادہ ہے۔ اِس لیے میرے لیے کیا خاص عنایت ہو سکتی ہے؟ انھوں نے فرمایا: عراقی طلبہ کے ساتھ دِن میں شریک رہو اور رات کا وقت میں صرف تمھارے لیے خاص کرتا ہوں۔ رات میرے ہی پاس گزارو، وہیں تمھیں احادیث سنایا کروں گا۔ چنانچہ میں شب کو امام محمد بن حسن شیبانی کے یہاں رہنے لگا، وہ خود چھت پر رہتے تھے اور میں نیچے کی منزل میں رہتا تھا لیکن میری خاطر سے وہ نیچے ہی اُتر آتے اور درس کے لیے اپنے سامنے ایک پیالہ میں پانی رکھ کر بیٹھ جاتے، جب پڑھتے پڑھتے رات زیادہ گذر جاتی تو مجھے نیند آنے لگتی ، وہ مجھے اُونگھتے ہوئے دیکھ کر ایک چُلُّو پانی میرے منہ پر چھڑکتے اور میں بیدار ہوجاتا۔ اُن کا اور میرا یہی طریقہ و راستہ جاری رہا یہاں تک کہ میں جس قدر اُن سے پڑھنا چاہتا تھا، پڑھ لیا۔‘‘
قاضی اسد عراق میں تحصیل علم میں مصروف تھے کہ مدینہ منورہ سے امام مالک کی وفات کی خبر پہنچی اور اُسی وقت سے امام مالک کے تلامذہ لوگوں کے لیے مرجع خلائق بن گئے جن میں قاضی اسد بن فرات بھی تھے۔ اِس جانکاہ خبر کو قاضی اسد بن فرات نے یوں بیان کیا ہے کہ:’’ہم لوگ ایک دن امام محمد بن حسن شیبانی کے حلقۂ درس میں بیٹھے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا اور لوگوں کو پھاندتا ہوا امام محمد کے قریب پہنچا اور اُن سے کوئی خبر بیان کی جس پر امام محمد بول اُٹھے: اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُون‘‘ ایک مصیبت ہے کہ اِس سے بڑھ کر کوئی دوسری مصیبت نہیں کہ امام مالک بن انس کا اِنتقال ہو گیا یعنی امیر المومنین فی الحدیث نے وفات پائی۔ یہ خبر مسجد میں پھیلی تو لوگ امام مالک کی وفات پر اِظہارِ غم کے لیے جمع ہونے لگے اور اُس کے بعد یہ حال ہو گیا کہ جب کوئی امام مالک بن انس کی حدیث و روایت کرنے لگتا تو ایک خلقت اُس کے گرد اُمنڈ آتی اور اِس قدر مجمع ہوجاتا کہ راستے بند ہوجاتے۔
قاضی اسد نے مشرق میں فقہ مالکی و فقہ حنفی کی تحصیل کے علاوہ شیوخِ عراق میں سے یحییٰ بن اکوع بن ابی زائدہ لاکوفی، ابوبکر بن عیاش، مُسَیَّب بن شریک اور ہیثم بن شریک وغیرہ سے علم حدیث حاصل کیا اور اُن سے احادیث روایت کیں اور اِن میں سے صرف مؤخر الذکر ہیثم بن شریک سے بارہ ہزار احادیث لکھیں۔[2]
قاضی اسد مشرق میں تحصیل علوم سے فراغت کے بعد وطن واپسی کے خیال پر آمادہ ہوئے لیکن مصارف کا کوئی سامان نہ تھا، اِس لیے سخت پریشان تھے اور آخر امام محمد کے سامنے تذکرہ آیا تو انھوں نے فرمایا: تمھارا ذِکر ولی عہد کے سامنے کروں گا، اُمید ہے کہ تم باآسانی وطن پہنچ جاؤ گے۔چنانچہ امام محمد نے ولی عہد سے اِن کا تذکرہ کیا اور اُس سے ملاقات کے لیے تاریخ مقرر ہو گئی۔جب ولی عہد کے محل جانے لگے تو امام محمد نے انھیں سمجھایا کہ تم اُن لوگوں کے ساتھ جس رکھ رکھاؤ سے پیش آؤ گے، ویسا ہی وہ بھی تم سے برتاؤ کریں گے، اگر تم اپنی خودداری قائم رکھ کر اُن سے ملو گے تو وہ بھی تمھیں باعزت و خوددار سمجھیں گے۔ اِس کے بعد ولی عہد کے محل پہنچے، ایک خادم نے اُن کا اِستقبال کیا اور ایک جگہ بٹھا دِیا، یہاں ایک اُن کے سامنے ڈھکا ہوا ایک خوان لایا گیا۔ اسد نے پوچھا:’’یہ جو کچھ لائے ہو، تمھاری طرف سے ہے یا تمھارے آقا کی طرف سے؟‘‘ پھر وہ بولا: آقا کے حکم سے لایا ہوں۔ اسد نے خوبصورتی سے جواب دیا: تمھارا آقا کبھی اُسے پسند نہیں کرسکتا کہ اُس کا مہمان اُس کی شرکت کے بغیر کھانا کھائے، صاحبزادے یہ تمھارا ہی احسان ہے، مجھ پر بھی تمھاری مکافات واجب ہے۔ یہ کہہ کر جیب ٹٹولی اور اُس وقت سارا سرمایہ جو جیب میں تھا، وہ صرف چالیس درہم تھے۔ انھوں نے اُس کے صلے میں بڑی فراخی سے وہ چالیس درہم اُس کی طرف بڑھا دیے اور خوان اُٹھا لینے کا اِشارہ کیا۔ خادم قاضی اسد سے بہت زیادہ خوش ہوا اور سارا واقعہ اپنے آقا سے جا کر کہہ دیا۔ وہ سن کر محظوظ ہوا اور قاضی اسد کو اندر طلب کر لیا۔جب میں ولی عہد کے پاس پہنچا تو وہ ایک تخت پر جلوہ افروز تھا۔ اُس کے سامنے ایک دوسرا تخت تھا جس پر حاجب بیٹھا ہوا تھا، تیسرا تخت خالی تھا، اُس پر مجھے بیٹھنے کا اِشارہ کیا۔ پھر مجھ سے مختلف گفتگوئیں کرتا رہا اور میں مناسب جوابات دیتا رہا۔ جب میری واپسی کا وقت آیا تو ایک رقعہ لکھ کر سربمہر لفافہ میرے حوالے کر دیا اور کہا: اِسے صاحب دیوان کے یہاں لے جاؤ تو وہ تمھیں اپنا ملازم تصور کریں گے۔ قاضی اسد نے دوبارہ ملاقات کا خیال ترک کرکے رختِ سفر باندھ لیا اور اپنے شفیق اُساتذہ سے رخصت ہوکر مصر روانہ ہو گئے۔
ابو عبد الله اسد بن فرات بن سنان امام مالک، امام ابو یوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی اور دوسرے مشاہیر محدثین کے ارشد تلامذہ میں سے تھے۔ انھیں افریقا کا قاضی القضاۃ بنا دیا گیا۔ جب زیادۃ اللہ بن ابراہیم اغلبی نے سسلی (صقلیہ) پر حملے کے لیے مشاورت کی تو آپ نے اس کی پرزور حمایت کی۔ اس نے ایک سو جہازوں کا بیڑا تیار کیا جس کا مرکز قیروان (تیونس) تھا۔ قاضی اسد کو ہی اس حملے کا قائد مقرر کیا۔ سات سو سوار اور دس ہزار پیادے جہازوں پر سوار ہوئے۔ پہلے عام طور پر سسلی کے دار الحکومت سراکیوز (سرقوسہ) پر حملہ کیا جاتا تھا۔قاضی اسد نے اچانک شہر مازر (مازارا) پر حملہ کیا اور اس پر قبضہ کر کے خسکی کے راستے سراکیوز (سرقوسہ) کا قصد کیا اور اس کا محاصر کر لیا۔ شہر فتح نہیں ہوا تھا کہ قاضی اسد نے زخمی ہو کر وفات پائی۔ انھیں سراکیوز (سرقوسہ) کے باہر ہی دفن کر دیا گیا اور وہاں ایک مسجد بنا دی گئی۔
امام محمد کی خدمت میں انھیں نمایاں اختصاص حاصل ہوا،ان کی اجازت سے ان کے عام درس میں شریک ہونے کے علاوہ شب کے وقت بھی ان سے پڑھتے تھے اور پھر جب ان کی غریب الوطنی کا علم ہوا تو امام محمد نے ان کی مالی امداد بھی فرمائی،انھوں نے یہ واقعات خود سلیمان بن سالم سے بیان کیے ہیں،فرماتے ہیں: "میں نے امام محمد بن حسن سے کہا کہ میں پردیسی ہوں اور آپ سے فقہ اورحدیث کا بہت کم سرمایہ جمع کرسکا ہوں؛کیونکہ آپ کے تلامذہ کی تعداد زیادہ ہے، اس لیے میرے لیے کیا خاص عنایت ہو سکتی ہے،انھوں نے فرمایا عراقی طلبہ کے ساتھ دن کے وقت درس میں شریک رہو اوررات کا وقت صرف تمھارے لیے خاص کرتا ہوں،رات میرے ہی پاس گزارو، میں تمھیں حدیثیں سنایا کروں گا؛چنانچہ میں شب کو امام محمد کے یہاں رہنے لگا، وہ خود کوٹھے پر رہتے تھے اورمیں نیچے کی منزل میں رہتا تھا؛ لیکن میری خاطر سے وہ نیچے ہی اتر آتے اور درس کے لیے اپنے سامنے ایک پیالے میں پانی رکھ کر بیٹھ جاتے، جب پڑھتے پڑھتے رات زیادہ گذرجاتی تو مجھے نیند آنے لگتی، وہ مجھے اونگھتے دیکھ کر ایک چلو پانی میرے منہ پر چھڑکتے اورمیں بیدار ہوجاتا ان کا اور میرا یہی طریقہ بدستور جاری رہا،یہاں تک کہ میں جس قدر ان سے پڑھنا چاہتا تھا، پڑھ لیا۔ امام محمد کی شفقتوں کے سلسلہ میں وہ مزید کہتے ہیں: میں ایک دن محمد بن حسن کے حلقۂ درس میں بیٹھا تھا ناگاہ سبیل لگانے والے کی آواز آئی، میں جلدی سے اٹھ کر گیا اورپانی پی کر حلقہ میں واپس چلا آیا،اس پر امام محمد نے مجھ سے پوچھا،مغربی تم سبیل کا پانی پیتے ہو؟ میں نے عرض کیا خدا آپ کو فلاح دے میں تو ابن السبیل ہوں،درس ختم کرکے میں گھر چلا گیا،تو رات کے وقت کسی نے دروازہ پر آوازدی دروازہ کھولا تومعلوم ہوا کہ امام محمد کا خادم ہے، اس نے مجھ سے کہا کہ آقانے آپ کو سلام کہا ہے اورآپ سے کہا ہے کہ مجھے آج سے پہلے بالکل معلوم نہ تھا کہ تم ابن السبیل ہو،اس لیے اس نفقہ کو لے لو اوراپنی ضرورتیں پوری کرو اس کے بعد اس خادم نے ایک بھاری تھیلی میری طرف بڑھائی،میں دل میں خوش ہوا کہ اس میں دراہم کی کافی تعداد ہے جب گھر میں آکر تھیلی کھولی تو دیکھتا ہوں کہ اس میں اسی اشرفیاں بھری ہوئی ہیں۔
اسد عراق میں تحصیل علم میں مصروف تھے کہ اچانک مدینہ سے امام مالک کی وفات کی خبر صاعقہ اثر ملی اوراسی وقت سے امام مالک کے تلامذہ طالبانِ علم کے مرجوعہ کے مرجوعہ بن گئے،جن میں قاضی اسد بھی شامل تھے اس واقعہ کو وہ خود اس طرح بیان کرتے ہیں: ہم لوگ ایک دن امام محمد کے حلقہ درس میں بیٹھے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا اورلوگوں کو پھاند تا ہوا امام محمد کے قریب پہنچا اوران سے کوئی خبر بیان کی جس پر امام محمد بول اٹھے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ایک مصیبت ہے کہ اس سے بڑھ کر دوسری مصیبت نہیں،مالک بن انس کا انتقال ہو گیا،امیر المومنین فی الحدیث نے وفات پائی۔ یہ خبر مسجد میں پھیلی پھر بجلی کی طرح سارے شہر میں دوڑ گئی لوگ مالک بن انس کی وفات پر اظہارِ غم کے لیے جمع ہونے لگے اور اس کے بعد یہ حال ہو گیا کہ جب کوئی مالک بن انس کی حدیث روایت کرنے لگتا تو ایک خلقت اس کے گرد امنڈ آتی اوراس قدر مجمع ہوتا کہ راستے بند ہوجاتے۔
اسی سلسلہ میں قاضی اسد سے بھی لوگوں نے امام مالک کی روایتیں حاصل کیں،بلاشبہ انھیں یہ قابلِ فخر اعزاز حاصل ہوا کہ امام ابو یوسف نے اس تشنہ علم کو سیراب کرنے کے بعد اس سے اس فیض کے حاصل کرنے کی خواہش کی جو وہ مدینۃ العلم سے حاصل کرکے لایا تھا؛چنانچہ امام ابو یوسف نے اسد سے مؤطا امام مالک کا درس لیا۔ پھر جب امام محمد کو اس کی خبر پہنچی تو فرمایا،ابو یوسف علم کی خوشبو سونگھ لیتے ہیں اور اس کے بعد انھوں نے بھی قاضی اسد سے مؤطا کے درس کی خود بھی خواہش ظاہر کی اور اس حیثیت سے اسد کی شخصیت اسلام کے دو اہم مذاہب کے اساطین اولین کے درمیان ایک سلسلۃ الذہب قرار پاتی ہے۔ اسد نے مشرق میں فقہ مالکی وحنفی کی تحصیل کے علاوہ علمِ حدیث پر بھی نظر رکھی،امام محمد سے تحصیلِ حدیث کا ذکر اوپر گذرا، ان کے علاوہ شیوخ عراق میں سے یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ کوفی،ابوبکر بن عیاش،مسیب بن شریک،اورہشیم بن شریک وغیرہ سے علم حدیث حاصل کیا اور ان سے حدیثیں نقل کیں، ان میں سے صرف مؤخر الذکر ہثیم بن شریک سے بارہ ہزار حدیثیں لکھیں۔
قاضی اسد نے مشرق میں تحصیلِ علم سے فارغ ہوچکنے کے بعد وطن واپسی کا ارادہ کیا،لیکن مصارفِ سفر کا کوئی سامان نہ تھا اس لیے سخت پریشان تھے،بالآخر امام محمد کے سامنے اس کا تذکرہ آیا،انھوں نے فرمایا،تمھارا ذکر ولی عہد (غالباً شہزادہ امین مراد ہے) کے سامنے کروں گا،اُمید ہے تم بآسانی وطن پہنچ جاؤ گے۔ چنانچہ امام محمد نے ولی عہد سے قاضی اسد کا تذکرہ کیا اوراس سے اسد کے ملنے کی تاریخ مقرر ہوئی،جب اسد ولی عہد کے محل میں جانے لگے تو امام محمد نے انھیں سمجھا یاکہ تم ان لوگوں کے پاس جس رکھ رکھاؤ سے پیش آؤ گے ویسا ہی وہ بھی تم سے برتاؤ کریں گے اگر تم اپنی خود داری قائم رکھ کر ان سے ملو گے تو وہ بھی تمھیں باعزت اورخود دار سمجھیں گے۔ اس کے بعد اسد ولی عہد کے محل میں پہنچے،ایک خادم نے ان کا استقبال کیا اور ایک جگہ بٹھادیا یہاں ان کے سامنے ایک ڈھکا ہوا خوان لایا گیا،اسد نے پوچھا یہ جو کچھ تم لائے ہو تمھاری طرف سے ہے یا تمھارے آقا کی جانب سے؟ وہ بولا آقا کے حکم سے لایا ہوں،اسد نے نہایت خوبصورتی سے جواب دیا: تمھارا آقا کبھی اسے پسند نہیں کرتا کہ اس کا مہمان اس کی شرکت کے بغیر کھانا کھائے صاحبزادے! یہ تمھارا ہی احسان ہے،مجھ پر بھی تمھاری مکافات واجب ہے،یہ کہہ کر جیب ٹٹولی، اس میں ان کا سارا سرمایہ کل چالیس درہم تھا،انھوں نے اس کے صلے میں اس کو بڑی فراخ حوصلگی سے چالیسوں درہم اس کی طرف بڑھادئے،اور خوان اٹھالینے کا اشارہ کیا، خادم اسد سے بے حد خوش ہوا اورسارا واقعہ اپنے آقا سے سُنایا وہ سُن کر بہت محظوظ ہوا اور اسد کو اندر طلب کیا،اس کے بعد خود اسد کی زبانی سُنئے۔ میں ولی عہد کی خدمت میں پہنچا،وہ ایک تخت پر جلوہ افروز تھا اس کے سامنے ایک دوسرا تخت بچھا تھا، جس پر حاجب بیٹھا تھا،تیسرا تخت خالی تھا، اس پر مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا،پھر مجھ سے مختلف گفتگو کرتا رہا اور میں مناسب جوابات دیتا رہا،جب میری واپسی کا وقت آیا تو ایک رقعہ لکھ کر سر بمہر لفافہ میرے حوالہ کیا اور کہا کہ اسے صاحبِ دیوان کے یہاں لے جاؤ،پھر مجھ سے دوبارہ ملنا،تمھیں انشاء اللہ یہاں آنے سے مسرت ہوگی۔ اس لفافہ میں دس ہزار دئے جانے کی ہدایت تھی،جب یہ رقم وصول ہو گئی تو اسد نے ولی عہد کی ہدایت کے مطابق اس کے یہاں دوبارہ جانا چاہا،مگر امام محمد نے یہ کہہ کر منع فرمایا کہ اگر اب ان لوگوں کے پاس دوبارہ جاؤ گے تو وہ تمھیں اپنا ملازم تصور کریں گے؛چنانچہ اسد نے دوبارہ ملنے کا خیال ترک کر دیا اوراپنے شفیق استادوں سے رخصت ہوکر مصر روانہ ہو گئے۔ اسد نے امام محمد کے دل پر اپنی محنت ،جفا کشی اور تحصیل علم کے شوق کے گہرے نقوش چھوڑے تھے،وہ ان کے آنے کے بعد مجلسوں میں ان کی تعریف فرماتے تھے،صاحب معالم نے لکھا ہے۔ امام محمد مکہ میں ان کی تعریف کرتے تھے اوران کے مناظرہ طریق درس اورعلم حدیث کی توصیف وستائش فرماتے تھے:
مصر میں اس وقت عبد اللہ بن وہب، اشہب اورعبدالرحمن بن قاسم کے علمبردار تھے،اوریہ تینوں امام مالک کے ایسے جلیل القدر تلامذہ تھے، جن کا احترام امام مالک کے تمام شاگرد کرتے تھے،اسد باری باری ان کے حلقہ درس میں شریک ہوتے، لیکن عبد اللہ بن وہب اور اشہب سے نبھ نہ سکی اورمؤخر الذکر سے تو ایسی سخت نوک جھونک ہوئی کہ اگر عبد اللہ بن عبد الحکیم وغیرہ درمیان میں نہ آجاتے تو بُرے نتائج پیدا ہوتے۔ آخر میں عبد الرحمن بن قاسم کی طرف رجوع کیا، یہ اپنے علم و فضل ،زہد وورع اورکبر سنی کی وجہ سے بڑے احترام سے دیکھے جاتے،عبادت وریاضت کا یہ حال تھا کہ دن رات میں تین ختم پڑھتے،اورگھنٹوں نماز میں قیام کرتے تھے۔ علمِ فقہ میں روایت ،رائے اورقیاس سب پر یکساں نظر رکھتے تھے اور ابنِ قاسم کی یہی جامعیت قاضی اسد کے لیے وجہ کشش تھی،ایک دن انھوں نے جوشِ عقیدت میں ان کے متعلق مسجد میں بآوازِ بلند یہ کہا: حضرات !اگر مالک بن انس کا انتقال ہو چکا ہے تو یہ دوسرا امامِ مالک ہمارے سامنے موجود ہے۔ یہ کہتے ہوئے ابنِ قاسم کی طرف اشارہ کیا اور پھر التزام سے روزانہ ان کی خدمت میں حاضر ہونے لگے۔
اس کے بعد قاضی اسد کا یہ دستور ہو گیا کہ وہ ابنِ قاسم سے روزانہ فقہی مسائل پر سوالات کرتے وہ جوابات دیتے،اسد سوال وجواب دونوں کو بالترتیب لکھتے جاتے،عبد الرحمن بن قاسم اپنے جوابوں میں امام مالک کے فتاویٰ بیان کرتے ان پر احادیث سے استدلال لاتے اورقیاس ورائے سے ان جوابوں کی صحت کے ثبوت بہم پہنچاتے،یہاں تک کہ انھوں نے ان جوابوں کے املا کرانے میں روزانہ کے تین ختموں کے معمول میں سے ایک ختم کو ترک کر دیا۔ اس طرح یہ سوال وجواب ساٹھ جزوں میں مدون ہو گئے اوریہی کتاب دنیا میں فقہ مالکی کی اولین کتاب ہے، اسد نے اس مجموعہ کو اپنے نام پر "السدیہ" سے موسوم کیا۔
الاسدیہ کی تدوین کے بعد قاضی اسد کو افریقہ واپسی کا خیال آیا،اس اثناء میں الاسدیہ کی شہرت پھیل چکی تھی،اہل مصر نے اسد سے اس کا ایک نسخہ حاصل کرنا چاہا، انھوں نے اس کے دینے میں تامل کیا اور یہ معاملہ قاضی تک پہنچا،اس کا دعویٰ تھا کہ اس کی نقل ان کے حوالہ سے کی جائے لیکن اہل مصر اس پر آمادہ نہ تھے،تھوڑے سے ردوکد کے بعد قاضی نے ا س کی نقل اسد سے دلوادی۔ جب اسد مصر سے روانہ ہونے لگے تو ابن قاسم نے کچھ سامان ان کے حوالہ کیا کہ اسے افریقہ میں فروخت کرکے اس کی قیمت سے کاغذ خریدا جائے اوراسد یہ کی نقل ان کے پاس بھیج دی جائے؛چنانچہ افریقہ پہنچ کر قاضی اسد نے اس کی نقل ایک عدد تیار کرا کے اپنے استاد کی خدمت میں ارسال کردی۔ 181ھ میں قاضی اسد مصر سے قیروان واپس آئے اوریہاں پہنچتے ہی خلقِ خدا کا ہجوم امنڈ پڑا اور انھوں نے مؤطا امام مالک اورالاسد یہ کا درس جاری کر دیا،ا مام مالک سے بیک واسطہ احادیث لینے اور الاسدیہ کی روایت اورسماع کے لیے افریقہ اورمغرب کے جلیل القدر علما نے اسد کے سامنے زانو تلمذ تہ کیا اور چند ہی دنوں میں ان کی "اسد یہ کی روایت جسے عرفِ عام میں المدونہ بھی کہنے لگے تھے سارے افریقہ ومغرب میں پھیل گئی۔
جب الاسدیہ شہرۂ آفاق حیثیت حاصل کرکے خاص و عام میں مقبولیت کی نگاہ سے دیکھی گئی تو اہلِ علم نے خصوصیت کے ساتھ اس پر توجہ کی اوراس کی نقل کا اہتمام کیا اسد کے حلقہ درس میں دو جلیل القدر علما سحنون اورمحمد بن رشید بھی شریک تھے ان دونوں نے اسد کی لا علمی میں اس کی نقل تیار کرنی شروع کی۔ لیکن اس زمانہ میں اہلِ علم کے درمیان کتاب کے نسخوں کو بڑی اہمیت حاصل تھی تلامذہ کا فرض تھا کہ استاد کی اجازت کے بغیر اس کی نقل نہ لیں اور دراصل وہ نسخے جو استاد کی تصدیق کے بغیر ہوتے معتبر بھی نہ سمجھے جاتے تھے،لیکن اس کے باوجود ان دونوں نے اس کی نقل حاصل کرنی شروع کی،اس لیے جب اسد کو اس کا حال معلوم ہوا تو انھیں سخت ناگوار گذرا،اب وہ لوگوں کو نسخہ کی جزوی نقل دینے میں بھی احتیاط برتنے لگے،مگر اس وقت تک سحنون قریب قریب مکمل ہو چکا تھا،صرف ایک باب کتاب القسم کی نقل باقی رہ گئی تھی۔ بہرحال سحنون اس کی نقل حاصل کرنے کی کوششوں میں لگے رہے؛چنانچہ ایک دن ایک شخص جزیرہ سے اسد کے پاس آیا اوران سے کتاب القسم کی نقل چاہی ،قاضی اسد کو شبہ ہوا کہ کہیں یہ سحنون کافر ستادہ نہ ہوا سلئے اسے نقل دینے سے انکار کر دیا،بالآخر ا س شخص نے حلف اٹھایا کہ وہ اس کی نقل سحنون کو نہ دے گا، اس پر قاضی صاحب نے کتاب القسم اس کے حوالہ کردی اوراس نے نقل حاصل کرلی۔ وہ شخص فی الواقع سحنون کا فرستادہ ہی تھا؛چنانچہ مطلوبہ نقل لے کر جب وہ امام سحنون کی خدمت میں واپس گیا تو اس نے کہا: "ابو سعید! یہ لو، مگر یہ نقل مجھے بغیر حلف اٹھائے نہ مل سکی،اب مجھے اپنی قسم کا کفارہ ادا کرنا ہے۔ اس طریقہ سے"الاسدیہ" کی نقل سحنون کے پاس مکمل تیار ہو گئی مگر اسد کو اس کی خبر نہیں ہوئی، چند دنوں کے بعد سحنون مصر کا قصد کیا، روانگی کے وقت افریقہ کے اہلِ علم ان کی مشایعت کو نکلے، ان میں اسد بھی موجود تھے،اسد نے درپردہ دریافت کرنے کے لیے کہ الاسد یہ کی نقل مکمل ہو گئی یا نہیں، ان سے کہا: " اگر تمھارے پاس یہ مدونہ ہوتی تو تم اسے ابنِ قاسم سے سُن سکتے۔ سحنون نے نہایت سنجید گی سے جواب دیا: وہ میرے سامان میں موجود ہے۔ قاضی اسد یہ سُن کر خاموش ہو گئے،اس کے بعد معلوم ہوا کہ سحنون کے سفرِ مصرکی اصل غرض وغایت ابن قاسم سے الاسدیہ کی روایت وسماع ہی ہے۔
چنانچہ امام سحنون مصر میں عبد الرحمن بن قاسم کی خدمت میں حاضر ہوئے،انھوں نے سب سے پہلے قاضی اسد کی خیر وعافیت دریافت کی،سحنون نے کہا "تمام ممالک میں ان کا علم پھیل گیا ہے"ابن قاسم یہ سن کر بہت خوش ہوئے۔ اس کے بعد سحنون نے ابنِ قاسم سے الاسدیہ کی روایت اس طرح لینی شروع کی کہ اسد کے مرتب کیے ہوئے سوالات سحنون پڑھتے اورابنِ قاسم اپنے جوابات کو دوہراتے اس طریقہ سے پوری "اسدیہ" تما م ہوئی۔ اس قرأت میں ابن قاسم نے "اسدیہ" کے جوابوں میں حذف وترمیم بھی کردی تھی اور بعض فتووں سے رجوع کر لیا تھا،جب سحنون مصر سے رخصت ہونے لگے تو ابنِ قاسم نے اسد کے نام ایک خط لکھا کہ: تمھاری مدونہ کے جوابوں میں کہیں کہیں ترمیم ہو گئی ہے،تم اپنے نسخہ کی سحنون کے نسخہ سے ملا کر تصحیح کرلو: اگرچہ موجود زمانہ میں بظاہر یہ معمولی بات معلوم ہوتی ہے کہ ایک نسخہ سے دوسرے نسخہ کی تصحیح کرلی جائے مگر اس عہد میں کتابوں کے نسخہ کے لیے جو اہتمام کیا جاتا تھا اوران کی مختلف حیثیات کے لحاظ سے ان میں جو فرقِ مراتب قائم ہوتا تھا،اس لحاظ سے اسد کے لیے یہ بڑی آزمائش کا وقت تھا،لیکن وہ بڑی فراخدالی سے سحنون کے نسخہ سے مقابلہ کرنے پر آمادہ ہو گئے، مگر دوسری طرف ان کے تلامذہ کی جماعت تھی، اسد نے ان سے بھی تذکرہ پر آمادہ ہو گئے،انھوں نے اس میں اپنے اُستاد کی توہین محسوس کی کہ وہ امام مالک سے شرفِ تلمذ رکھنے کے باوجود سحنون کی شاگردی میں داخل ہوں ، کیونکہ سحنون کے نسخہ سے مقابلہ کرلینے کے بعد اس زمانہ کے درس وتدریس کے قواعد کے مطابق اسد سحنون کی شاگردی میں داخل ہوجاتے ؛چنانچہ ان لوگوں نے اسد کو آمادہ کر لیا کہ وہ ابن قاسم کے پیغام کو قبول کرنے سے انکار کر دیں اوراسد نے فیصلہ کا اعلان کر دیا، لیکن افسوس ہے کہ اسد کا فیصلہ الاسدیہ کے حق میں اچھا نہیں ہوا، امام سحنون نے مصر سے واپس آکر بڑی شان وشوکت سے اپنی مسند درس بچھائی ، سارے مغرب میں ابنِ قاسم کے مکتوب کی شہرت ہو چکی تھی،لوگ جوق درجوق سحنون کے پاس آئے اوران کی ترمیم شدہ اسدیہ کی روایت ان سے لی، جس کی وجہ سے اسد کا نسخہ روز بروز بے وقعت ہوتا گیا اور سحنون کی مدونہ کو اعتبار حاصل ہوتا گیا ،یہاں تک کہ سحنون کو "امام" کا لقب حاصل ہوا اور ان کے نسخہ کی بدولت ان کا نام اسد کے نام پر غالب آگیا۔ اگرچہ موجودہ زمانہ میں سحنون کے نسخہ سے مقابلہ کرنے سے اسد کا گریز کرنا پسندیدہ نہ سمجھا جائے،مگر اس زمانہ میں نسخوں کی برتری اورپستی اورروایتوں میں راویوں کے بقاء وسماع کے جو اعتبارات قائم تھے، انھیں دیکھتے ہوئے، اسد کا طرزِ عمل شاید قابلِ الزام نہ سمجھا جائے اوردراصل اس میں صحیح رائے اسی زمانے کے اہلِ علم قائم کرسکتے ہیں؛چنانچہ شیخ ابو الفاضل ابو القاسم بن احمد برزلی رحمہ اللہ اسد کے اس طرزِ عمل کے متعلق یوں اظہارِ رائے فرماتے ہیں: درست وہی ہے جو اسد نے کیا؛کیونکہ انھوں نے ابن قاسم سے اپنے سوالوں کے جواب بالمشافہ حاصل کیے تھے،خط کے ذریعہ سے سماع کی مقبولیت کامسئلہ اہل علم کے درمیان مختلف فیہ ہے،اس لیے کسی ایسی چیز کو جو متفق علیہ ہو کسی ایسی چیز کی خاطر نہیں چھوڑ سکتے جو مختلف فیہ ہے۔ یعنی ابن قاسم کے اس خط کی بنیاد پر جسے سحنون مصر سے لائے تھے ،اسد کے اپنے نسخہ میں جو بالمشافہ سنا ہوا تھا ترمیم و اصلاح کرنے سے وہ متفق علیہ نسخہ مختلف فیہ بن جاتا ہے۔ اسد کے لیے اس وقت بہتر شکل یہ تھی کہ وہ خود مصر کا سفر کرتے اورابنِ قاسم کے سامنے اپنے نسخہ کو دہرالیتے ،مگر ان کے مکتوب کے رد کردینے کے بعد شاید استاد وتلمیذ میں ایسی صفائی باقی نہ رہ گئی ہوکہ وہ مصر کا سفر کرتے ،البتہ اس کا امکان مکتوب کے رد کردینے سے پہلے ہی تھا، تاہم ان تمام حالات کے باوجود قاضی اسد تمام عمر ابنِ قاسم کا نام عزت واحترام سے لیتے رہے،اگرچہ یہ روایت بھی مشہور ہو چکی تھی کہ جب عبد الرحمن بن قاسم کو اسد کے انکار کی خبر ملی تو انھوں نے اسد یہ کے غیر مقبول ہونے کی بددعا کی اورشہرت تھی کہ ان کی دعا باب اجابت تک پہنچی، مگر اسد نے کبھی استاد کے ادب واحترام میں کمی نہیں کی اسی زمانہ میں جب یہ مسئلہ چھڑا ہوا تھا، فقیہ معمران کی خدمت میں پہنچے اور انھیں روتے ہوئے پایا،معمر نے وجہ پوچھی تو انھوں نے کہا نہیں کوئی مصیبت نہیں لیکن میرے پاس ابن قاسم کا خط آیا ہے ،وہ مجھے حکم دیتے ہیں کہ میں اپنی کتاب سحنون کی کتاب سے دہرا لوں ؛حالانکہ سحنون کی میں نے تربیت کی ہے۔ اس پر معمر نے اسد سے ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے ان کی تعریف کی اورابنِ قاسم کے خط لکھنے پر نکتہ چینی شروع کی،تو اسد فوراً بولے، ایسا نہ کرو اگر تم ابن قاسم کو دیکھتے تو تمھارے لیے یہ کہنا دشوار ہوتا۔ اسی طرح اسد کے عہدہ قضا کے زمانہ میں کسی فقیہ نے ابنِ قاسم کی تنقیص کی اوران کی روایتِ حدیث پر جرح کی جب اسد کو خبر ملی تو انھوں نے اس کی تفتیش کرکے اس فقیہ کو سنگین سزادی اور انھیں بُری طرح پٹوایا۔ الغرض اسد یہ کی تیسری نقل یہی "المدونۃ الکبریٰ"ہے،صرف ان دونوں میں چند مسائل کا فرق ہے اور اس وقت سے دورِ حاضرتک یہی کتاب فقہِ مالکی کی سب سے بڑی اورمستند ترین کتاب خیال کی جاتی ہے۔ "المدونۃ"پہلی مرتبہ 1324 ھ میں مطبع خیر یہ مصر سے چار جلدوں میں شائع ہوئی،اگرچہ اس مطبوعہ نسخہ میں الاسدیہ کاکوئی ذکر نہیں ہے کیونکہ سحنون کے مصر جانے کے بعد ضابطہ کے لحاظ سے ان کی تملیک کا حق سحنون کو بھی حاصل ہو چکا تھالیکن اہل علم وخیر اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ یہ اصل کمائی اسد ہی کی ہے اورامام سحنون نے بھی بخوبی اس کا اعتراف کیاہے ؛چنانچہ ابنِ فرحون نے بھی اپنی کتاب میں امام سحنون کے وہ کلمات درج کیے ہیں جو انھوں نے المدونہ کے متعلق ظاہر کیے تھے اور اس نے المدونہ کے تمام شروح وحواشی اورملحضات وغیرہ کو اسد کے ترجمہ میں الاسدیہ ہی کی طرف منسوب کیا ہے؛چنانچہ رقمطراز ہے: قال سحنون علیکم بالمدونۃ فانھا کلام رجل صالح وروایتہ وکان یقول انما المدونۃ من العلم بمنزلۃ ام القران تجزی فی الصلوۃ عن غیر ھاولا یجزی غیر عنھا سحنون کا قول ہے کہ تمھیں اس مدوّنہ کو اپنے لیے لازم کرلینا چاہیے وہ ایک صالح شخص (ابن قاسم)کا کلام ہے اورایک صالح شخص (اسد)کی روایت ہے اورسحنون کہا کرتے تھے یہ مدونہ علم میں وہی درجہ رکھتی ہے جو نماز میں ام القرآن کا ہے، نماز میں اس کے علاوہ دوسری صورتیں پڑھنے کی اجازت ہے،لیکن اس کے بغیر کوئی نماز جائز نہیں۔ [3] اس لیے گویا علم کی تکمیل مدونہ کے بغیر ممکن نہیں رہی،مدونہ کے ساتھ دوسری کتابیں بھی پڑھی جا سکتی ہیں؛علامہ ابن فرحون اس کے بعد مزید لکھتے ہیں۔ افرغ الرجال فیھا عقولھم وشرحوھا وبینو ھا فما اعتکف احد علی المدونۃ ودراستھا الاعرف فی ورعہ وزھدہ [4] لوگوں نے اس میں اپنی خوب طبع آزمائیاں کی ہیں، شرحیں لکھی ہیں اور اس کی تو ضیحیں کی ہیں، ایسا کوئی شخص نہیں ہے جس نے اس مدونہ پر بھروسا نہ کیا ہو اوراس کا درس نہ لیا ہو اورپھر وہ اسد کے زہد وورع کا قائل نہ ہو۔
الاسدیہ کے متعلق جس واقعہ کا ذکر سطورِ بالا میں ہوا، اس کے بعد قاضی اسد نے اپنے فتوؤں میں دوسری روش اختیار کی یعنی بعض مسائل خصوصاً معاملات میں وہ فقہ حنفی کے مطابق فتویٰ دینے لگے، پھر عہدۂ قضا پر مامور ہونے کے بعد تو تقریباً تمام معاملات کے فیصلے فقہ حنفی کی رو سے کرتے تھے؛کیونکہ ایک طرف ان کے نسخہ کے مسائل امام سحنون کے نسخہ سے مقابلہ کرنے کے باعث کلیۃً مشتبہ ہو گئے تھے،اس کے علاوہ مسائل معاملات میں جس قدر جزئیات دولتِ عباسیہ کی سرپرستی کی وجہ سے فقہ حنفی میں منضبط ہو گئے تھے، وہ الاسدیہ میں موجود نہ تھے؛چنانچہ ابو القاسم زیاد بن یونس سیوری کا بیان ہے۔ "اسد نے ابن قاسم کے خط کو قبول نہیں کیا اوراپنی کتاب موسومہ الاسدیہ پر اعتماد کیے رہے،پھر اہل عراق (احناف) کے مذہب کی اشاعت کرنے لگے" اس طریقہ سے اسد افریقہ میں فقہ حنفی کے سب سے بڑے علمبردار بن گئے اوریہ قدرۃ مالکیوں کو ناگوار گذرا اور ان کے خلاف مختلف افواہیں پھیلائیں،جن میں ایک یہ بھی تھی کہ انھیں امام مالک سے شرفِ تلمذ حاصل نہیں ہوا، اس کا اندازہ مقدسی (375ھ) صاحب احسن التقاسیم کی ایک روایت سے ہوتا ہے جسے اس نے کسی افریقی سے سُن کر اپنی کتاب میں جگہ دی ہے وہ رقمطراز ہے: میں نے بعض اہل افریقہ سے سوال کیا کہ تمھارے یہاں امام ابو حنیفہ کا مسلک کیونکر پہنچا؛حالانکہ وہ تمھارے راستہ میں نہیں ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ: 1۔ہمارے یہاں سے وہب بن وہب مالک کے یہاں سے فقہ ودیگر علوم میں ماہر ہوکر واپس آئے تو اسد بن عبد اللہ(؟)پر ان کی جلاتِ شان اورکبر نفس کی وجہ سے یہ شاق گذرا کہ وہ وہب کے سامنے درس کے لیے زانوئے ادب تہ کریں اس لیے انھوں نے براہِ راست امام مالک کی طرف رُخ کیا،لیکن وہ اس زمانہ میں بیمار تھے،جب انھیں وہاں ٹھہرے ہوئے کچھ زمانہ گذر گیا اور امام مالک صاحبِ فراش رہے تو انھوں نے اسد سے فرمایا کہ تم وہب کے پاس چلے جاؤ میں نے لوگوں کو سفر کی تکلیفوں سے بچانے کے لیے انھیں اپنا تمام علم ودیعت کر دیا ہے۔ امام مالک کا یہ ارشاد اسد پر اور بھی گراں گذرا وہ امام مالک سے مایوس ہوکر کسی ایسے شخص کی جستجو میں لگے جو علمی وقار میں ان کے ہم پلہ ہو،لوگوں نے امام محمد صاحب ابی حنیفہ کا نام بتایا۔ 2۔چنانچہ وہ امام محمد کی خدمت میں حاضر ہوئے،انھوں نے ان کا خیر مقدم کیا اوربڑی توجہ سے پیش آئے اوران کی ذکاوت ذہانت اورتحصیل علم کے شوق سے متاثر ہوکر بڑی جانفشانی سے علم فقہ پڑھا یا۔ ۔جب اسد کی علمی استعداد قابل اطمینان ہو گئی تو امام محمد نے انھیں حنفی مذہب کا علمبردار بناکرمغرب کی طرف بھیجا،جہاں پہنچ کر انھوں نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری کیا اورمغرب میں فقہ حنفی کے لیے بہت عمدہ زمین تیار کردی،لوگ فروعات میں ان کی نکتہ رس نگاہ دیکھ کر حیرت کرتے اوروہ ایسے دقیق مسائل بیان کرتے جنہیں لوگوں نے کبھی سُنانہ تھا،تلامذہ کی بڑی جماعت حلقہ بگوش ہو گئی اورانہی تلامذہ نے مغرب کے گوشہ گوشہ میں پہنچ کر اس مذہب کی ایسی ترویج کی کہ وہ مغرب کے تمام افق پر چھا گیا۔ [5] یہ کسی مالکی المسلک افریقی کا بیان ہے ،اس میں اسد کے مدینہ اورعراق کے سفر کے متعلق جو باتیں ہیں،وہ قطعی بے اصل ہیں، اس کے صحیح حالات اور مستند روایتوں سے گذر چکے ہیں،پھر وہب بن وہب کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے وہ امام مالک کی وفات کے بعد کا واقعہ ہے،ورنہ وہب تو اسد کے قیام مدینہ کے زمانہ میں وہیں موجود تھے،اس روایت میں امام مالک سے موطا پڑھنے سے بھی انکار کیا گیا ہے؛حالانکہ جو روایتیں اس سلسلہ میں اوپر گذر چکیں،قاضی عیاض نے بھی اس فہرست میں اسد کا نام رکھا ہے جنھوں نے امام مالک سے موطا پڑھی تھی۔ دوسرے پیرا گراف میں راوی کا جوبیان درج ہے اس میں یہ واقعہ صحیح نہیں کہ امام محمد نے انھیں مذہب حنفی کا علمبردار بناکر افریقہ بھیجا، اگر ایسا ہوتا تو وہ مصر میں ٹھہر کر عبد الرحمن بن قاسم سے"الاسدیہ"مرتب نہ کرتے۔ اسی قسم کی روایتوں کی بنیاد پر یہ شہرت بھی دی گئی کہ اسد نے اس واقعہ کے بعد مالکی مذہب ترک کرکے حنفی مذہب قبول کر لیا، لیکن جہاں تک روایات اور قیاسات سے انھیں دیکھا جا سکتا ہے، اس کی تائید نہیں ہوتی،اسد کے فقہی مذہب کے متعلق سب سے متوازن وبہتر رائے جعفر القیصری کی ہے وہ لکھتا ہے: کان اسد امام العراقیین بالقیروان کافۃ مشھورا بالفضل والدین و دینہ مذہبہ السنۃ اسد قیروان میں احناف کے امام تھے،علم و فضل اوردینداری میں شہرت تامہ رکھتے تھے اوران کا دین و مذہب سنت تھا۔ اس بیان کے آخری فقرہ "دینہ ومذھبہ السنۃ"سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی وسعتِ نظر اوراجتہاد کے ساتھ سنت پر عمل کرتے تھے اورجہاں تک افتاء کا تعلق ہے وہ فقہ حنفی کے مطابق دیتے تھے،تاہم اہل علم نے انھیں ہر دور میں مالکی مذہب کا پیروسمجھا ؛چنانچہ مالکی مذہب کے فقہا کے حالات میں طبقات کی جو کتابیں مختلف زمانوں میں لکھی گئیں، ان میں "مالکی فقیہ" کی حیثیت سے اسد کا نام موجود ہے،برخلاف اس کے فقہائے احناف کے طبقات کی کتابوں "الجواھرالمضئیہ"وغیرہ میں اسد کا نام نہیں ملتا۔
کمال تفقہ وافتاء کے باعث عہدۂ قضا پر بھی مامور ہوئے جس زمانہ میں وہ افریقہ آئے،عبد اللہ بن غانم قیروان کے قاضی القضاۃ (چیف جسٹس)تھے وہ اسد کے قدر دان اوران کے علم و فضل کے معترف تھے،جب تک زندہ رہے مسائل و معاملات میں ان سے مشورہ لیتے رہے۔ [6] ان کی وفات کے بعد 191ھ میں ایک دوسرے اہل علم ابو محرز اس عہدہ پر سر فراز کیے گئے ،پھر افریقہ کے شیوخ و علما نے اسد کو ممتاز عہدہ پر مامور کرانا چاہا؛چنانچہ علی بن حمید نے والی افریقہ کے شیوخ و علما نے اسد کو ممتاز عہدہ پر مامور کرانا چاہا؛چنانچہ علی بن حمید نے والی افریقہ زیادۃ اللہ کے سامنے اسد کی علمی مرتبت فضل وکمال اورشہرت کا تذکرہ کرکے اس خواہش کا اظہار بھی کیا،لیکن ابو محرز کو دولتِ غلبیہ کے بانی ابراہیم بن اغلب نے اس عہدہ پر نامزد کیا،اس لیے زیادۃ اللہ نے انھیں معزول کرنا مناسب نہ سمجھا اوراس کی یہ دوسری شکل اختیار کی کہ اسد کو 203ھ میں اس عہدہ میں مساوی حیثیت سے ابو محرز کا شریک بنادیا،یہ اسلامی حکومت میں پہلی مثال تھی کہ ایک ہی عہدہ پر ایک ہی حیثیت اوراختیار کے ساتھ دو شخص مامور کیے جائیں۔ اسد کا یہ تقرر قدرۃابو محرز کوناگوار گذرا،علاوہ ازیں ان دونوں میں کسی قدر علمی چشمک موجود تھی، اب یہ معاصرانہ چشمک پہلے سے زیادہ تیز ہو گئی اورباہمی مسابقت کے جذبات پیدا ہو گئے اورکبھی کبھی مناظرہ مجادلہ تک نوبت پہنچ جاتی،ان دونوں کی چشمکوں کے ایک سے زیادہ واقعات صاحب معالم وغیرہ نے تفصیل سے لکھے ہیں اوران دونوں کے علم و فضل کا موازنہ کیا ہے،مصنف معالم کی رائے ہے: اسد ابو محرز سے علم و فضل میں زیادہ تھے اورانہیں فقہ پر بھی زیادہ عبور حاصل کیا تھا اورابو محرز اگرچہ اسد سے علم و فقہ میں کم پایہ تھے مگر بعض اوقات (مسائل کے جواب میں )حق ان کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کے بعد 209ھ میں منصور طبندی نے زیادۃ اللہ کے خلاف خروج کیا اوردارالسلطنت قیروان پر قابض ہو گیا،منصور کے مستولی ہونے کے بعد قاضی ابو محرز اورقاضی اسد دونوں اس کے پاس پہنچے، اس کی مجلس میں سلطنت کے اعیان اورفوج کے ممتاز قائدین موجود تھے، منصور نے ان دونوں کے عہدۂ قضا کی مناسبت سے ان کے سامنے زیادۃ اللہ کے مظالم بیان کیے اور دونوں کی رائے طلب کی ابو محرز نے موقع ومحل سے خائف ہوکر اس کے بیان کی تائید کردی ، لیکن قاضی اسد نے صاف گوئی سے کام لیا اور نہ صرف یہ کہ منصور کے بیان کی تردید کردی ؛بلکہ اسے ظالم ٹھہرایا یہ سن کر ایک فوجی افسر تلوار سونت کر اسد کے سر پر کھڑا ہو گیا، مگر معاملہ فوراً رفع دفع ہو گیا،اس کے بعد یہ دونوں لوٹ آئے اورخائف رہے کہ پھر کوئی ناگوار صورت پیش نہ آئے۔ زیادۃ اللہ نے 211ھ میں منصور پر غلبہ حاصل کر لیا اورقیروان پر قابض ہو گیا ،منصور کے روبرو اسد اورمحرز کی جو گفتگو ہوئی تھی،وہ امیر زیادۃ اللہ کے کانوں تک پہنچ چکی تھی،اسی بنا پر زیادۃ اللہ نے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد ابو محزر کو عہدۂ قضا سے معزول کردیااور قاضی اسد اپنے عہدہ پر فائز رہے اور اب وہ افریقہ کے تنہا قاضی القضاۃ تھے۔ افریقہ کے اعیان و علما قاضی اسد کے عہدۂ قضا کا احترام اورلحاظ اس کے شایان شان کرتے تھے ایک مرتبہ قاضی اسد نے یہاں کے چند معزز اہل علم سحنون بن سعید، عون بن یوسف اورابن رشید کو اپنی مجلس میں طلب کیا اور کسی مسئلہ میں ان کی رائے دریافت کی،سحنون کے ساتھیوں نے سحنون سے وجہ پوچھی تو انہو ں نے کہا: مجھے خوف ہوا کہ ہم ان کی خدمت میں اس حال میں پہنچے تھے کہ باہم دوست تھے اوران کے پاس سے نکلتے تو ایک دوسرے کے دشمن ہوتے۔
والی افریقہ زیادۃ اللہ بن ابراہیم نے جب 212ھ میں صقلیہ پر حملہ کرنے اوراسے دارالاسلام بنانے کا ارادہ کیا تو اس نے افریقہ کے اعیان علما فقہا اوراہل رائے کی ایک مجلسِ مشاورت منعقد کی، جس میں قاضی اسد بہت پیش پیش رہے اوردرحقیقت انہی کی رائے اور مشورہ سے صقلیہ پر حملہ کا پلان قطعی طور پر طے پایا تھا۔ اسی باعث جب امیر زیادۃ اللہ نے صقلیہ پر حملہ آور فوج تیار کرلی تو اس کی سپہ سالاری کے لیے اس کی نظر انتخاب قاضی اسد پرپڑی، انھیں جب امیر کے اس فیصلہ کی اطلاع ملی تو انھوں نے مسندِ قضأوافتاء کو چھوڑ کر امارت عسکری کے اس جدید منصب کو قبول کرنے میں کسی قدر پس وپیش کیا اور امیر زیادۃ اللہ سے عرض کیا کہ :مجھے منصبِ قضا جیسے دینی منصب سے الگ کرکے فوج کی امارت سپرد کی جاتی ہے؟زیادۃ اللہ نے اس کا جواب ان الفاظ میں دیا:تم عہدۂ قضا پر بھی فائز رہو اورلشکر کی امارت بھی تمھارے سپرد کی جاتی ہے جو اپنے اعزاز اوررتبہ میں عہدۂ قضا سے زیادہ بلند ہے،میں تمھارے لیے قضاء کا انتساب بھی باقی رکھتا ہوں اورتمہیں "قاضی امیر"سے خطاب کیا جائے گا۔ اس کے بعد عہدۂ امارتِ فوج اورمنصب قضا دونوں کی سندیں لکھ کر امیر نے ان کے حوالہ کیں،قاضی اسد کے سوانح نگاروں نے نہایت والہانہ انداز میں لکھا ہے: یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ افریقہ میں اس سے پیشتر ان دو جلیل القدر عہدوں پر کوئی شخص بیک وقت فائز نہیں ہوا تھا۔ [7] قاضی اسد کی سپہ سالاری کا ایک اچھا نتیجہ یہ نکلا کہ افریقہ کے معزز اہل علم ان کی ہمرکابی کا شرف حاصل کرنے کے لیے کارواں درکارواں فوج میں بھرتی ہونے لگے،یہاں تک کہ مؤرخین کا بیان ہے کہ اسد کی شخصیت کی کشش افریقہ کے عزلت گزیں صوفیہ کو بھی ان کے حجروں سے باہر نکال لائی۔ بہر حال قاضی اسد کی سرگردگی میں یوم شنبہ 15 ربیع الاول 212ھ کو دس ہزار منتخب سرفروشوں کا لشکر صقلیہ کو دارالاسلام بنانے کے لیے قیروان سے روانہ ہوا،یہ جنگی بیڑا سات سو جہازوں پر مشتمل تھا، جن میں سات سو سوار اوردس ہزار پیادہ فوج تھی، یہ بیڑا 18 ربیع الاول 212ھ،827ء کو صقلیہ کے ساحلی شہر مازر میں لنگر انداز ہو گیا [8]اور اس شہر کو بلا کسی زحمت ومزاحمت کے قبضہ میں کر لیا اورپھر سپہ سالار قاضی اسد نے یہیں مورچہ بندی کرکے دشمن کا انتظار شروع کر دیا،لیکن تین روز کے شدید انتظار کے باوجود بھی دشمن کی فوجیں نظر نہیں آئیں ؛چنانچہ قاضی صاحب نے مازر کے قلعہ پر فتح و نصرت کا جھنڈا لہرانے کے بعد پیشقدمی کی اورمقامِ مرج پہنچ کر مجاہدین خیمہ زن ہو گئے۔ حکومت صقلیہ نے اپنی حربی تیاریوں کے علاوہ حکومتِ قسطنطنیہ اوردنیس سے بھی امداد طلب کی تھی ؛چنانچہ ان تینوں حکومتوں کا مشترکہ عظیم الشان لشکر اسلامی فوج سے مقابلہ کے لیے مرج پہنچا اوراس طرح ایک طرف دس ہزر بے وطن سپاہی صف آراء تھے اوردوسری طرف ڈیڑھ لاکھ زرہ بکتر رومیوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔[9] قاضی اسد لوائے جنگ اپنے ہاتھ میں سنبھالے ہوئے تھے،مجاہدین اسلام دم بھر کر لرزہ براندام ہوکر رہ گئے،قاضی صاحب نے جونہی اس کیفیت کو محسوس کیا نہایت جوش وخروش کے ساتھ سامنے آئے اور بلند آواز سے سورۃ یسین تلاوت فرمائی پھر مجاہدین کو خطاب کیا: مورخین لکھتے ہیں کہ قاضی اسد کا خطاب ایسا بر محل اور ولولہ انگیز تھا کہ اسلامی فوج کی ہمت وشجاعت پھر عود کر آئی اور ایسا معلوم ہونے لگا کہ ان میں کا ہر فرد اپنی تشنہ تلواروں کی پیاس بجھانے کے لیے بے قرار ہے [10] اسی خطاب میں اسد نے کہا: مجاہدو: یہ ساحل کے وہی عجم ہیں جو روپوش ہوکے یہاں جمع ہو گئے ہیں یہ تو تمھارے بھاگے ہوئے غلام ہیں، ان سے کہیں خائف نہ ہوجانا۔ اسد اپنے مذکورہ بالا الفاظ کو گنگناتے ہوئے آگے بڑھے اور رجز خوانی کرتے ہوئے رومیوں پر ٹوٹ پڑے،مجاہدین نے بھی تلواریں سنبھالیں اورفوج کے اس جنگ میں گُھس گئے اور گھمسان کی لڑائی ہونے لگی ،رومیوں نے سارا زور اسد پر صرف کیا اورانہی پر پے درپے حملے کرتے گئے جس کا وہ بھی پامردی سے جواب دیتے رہے اور گو زخموں سے شکستہ حال ہو گئے مگر لوائے جنگ ہاتھ سے نہ چھوٹا، یہاں تک جس ہاتھ میں جھنڈا تھا وہ خون سے تر ہو گیا مگر اسد نے اسے سرنگوں نہ ہونے دیا۔ آخر رومیوں کے پائے ثبات میں لغزش آئی،ٹڈی دل فوج درہم برہم ہونے لگی اور وہ خیمہ وخرگا چھوڑ کر بھاگنے لگے، خلاصہ یہ کہ صقلیہ کا یہ پہلا معرکہ مسلمانوں کے ہاتھ رہا ،اس پہلی معرکہ آرائی میں سب سے نمایاں کارنامہ خود امیر لشکر قاضی اسد کا تھا، زیادۃ اللہ نے اس کے فتح و ظفر کا مژدہ خلیفہ وقت ماموں کو بھیجا اوراس کی شہرت تمام عالمِ اسلامی میں پھیل گئی۔
قاضی اسد نے سرزمین صقلیہ میں اسلامی حکومت کا جھنڈا لہرانے کے بعد مزید پیش قدمی کی اورسرقوسہ کا محاصرہ کر لیا اور ایک طویل ترین مدت تک یہ محاصرہ جاری رہا یہاں تک کہ محاصرین اورمحصورین دونوں اپنے بعض خاص حالات کی وجہ سے سخت پریشان اورعاجز آگئے تھے،اس محاصرہ کے دوران فریقین کے درمیان ہلکی پھلکی چھڑپوں کا سلسلہ برابر جاری رہا، تیروں کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا تھا۔ [11] محاصرہ کی یہی حالت قائم تھی کہ اسلامی لشکر پر ایک نئی افتاد آپڑی،لڑائیوں کا جو سلسلہ قائم تھا، اسی میں اتفاق سے امیر لشکر اسد بھی زخمی ہو گئے، زخم اتنا کاری تھا کہ وہ اس سے جانبر نہ ہو سکے اور انہی زخموں کو تاب نہ لاکر حالتِ محاصرہ ہی میں بماہ ربیع الآخر 213ھ 828ء علم و فضل اور شجاعت وشہامت کا یہ آفتاب غروب ہو گیا،فاتح صقلیہ اسی زمین کا پیوند بنا جسے وہ اپنے فتویٰ اور فتحمندی سے دار الاسلام قرار دے چکا تھا۔ قاضی اسد کی وفات سے افریقہ میں گھر گھر صفِ ماتم بجھ گئی،خود زیادۃ اللہ کو اس کا نہایت غم ہوا،ان کے مرقد پر ایک مسجد تعمیر کی گئی نیز قیروان میں بھی ان کی یاد گار کے طور پر ایک مسجد بنائی گئی جس پر "اسد بن فرات" کندہ ہے۔ [12] نوٹ:اسد بن فرات کے مذکورہ بالا سوانح وکمالات بعض ضروری ترمیمات اورحوالوں کے اضافہ کے ساتھ تاریخ صقلیہ مولفہ مولانا ریاست علی ندوی مرحوم سے ماخوذ ہیں۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.