From Wikipedia, the free encyclopedia
مارخور جنگلی بکرے کی ایک قسم کا چرندہ ہے
مارخور | |
---|---|
Male markhor | |
صورت حال | |
! colspan = 2 | حیثیت تحفظ | |
اسمیاتی درجہ | نوع [1][2] |
جماعت بندی | |
مملکت: | جانورia |
جماعت: | ممالیہia |
طبقہ: | Artiodactyla |
خاندان: | Bovidae |
الأسرة: | Caprinae |
جنس: | Capra |
نوع: | C. falconeri |
سائنسی نام | |
Capra falconeri[1][2][3] Johann Andreas Wagner ، 1839 | |
حمل کی مدت | |
Subspecies | |
see text | |
خريطة إنتشار الكائن | |
| |
درستی - ترمیم |
پاکستان میں گلگت بلتستان، ضلع چترال، وادی کالاش اور وادئ ہنزا سمیت دیگر شمالی علاقوں کے علاوہ وادی نیلم کے بالائی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مارخور بھارت ‘افغانستان ،ازبکستان،تاجکستان اور کشمیر کے کچھ علاقوں ميں بھی پايا جاتا ہے۔ قدرت اور قدرتی وسائل کی حفاظت کی عالمی تنظیم بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ قدرت کے مطابق اس نوع کو ان جانوروں میں شمار کیا جاتا ہے جن کا وجود خطرے میں ہے۔ بالغ مارخور تعداد میں 2500 سے بھی کم ہیں۔ مارخور پاکستان کا قومی جانور ہے۔
لفظ ‘مارخور’ بنیادی طور پر دو الفاظ کو جوڑ کر بنایا گیا ہے جس کے لیے ایک لفظ کو فارسی زبان سے اور دوسرے کو پشتو زبان سے لیا گیا ہے، لفظ مار کا معنی ‘سانپ’ اور خور کا معنی ‘کھانے والا’ ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سانپ ایک زہریلا اور خطرناک جانور ہے اور انسان کا دشمن سمجھا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہی سمجھیں کہ ‘دُشمن کو کھا جانے والا’۔
مارخور کی یہ نسل زیادہ تر پاکستان کے شمالی علاقہ جات جیسے کہ چترال، غذر اور ہنزہ کے ٹھنڈے علاقہ جات اور اُنچے خطرناک پہاڑوں میں پائی جاتی ہے۔
ایک قسم کا جنگلی بکرا جس کے سینگوں کا طول چار فٹ ہوتا ہے اور یہ گلگت اور کوہِ سلیمان میں پایا جاتا ہے، سانپ کھانا اسے مرغوب ہوتا ہے۔ مارخور کا نام تھوڑا عجیب ہے۔ پشتو اور فارسی زبان میں "مار" کے معنی ہیں سانپ اور " خور" سے مراد ہے کھانے والا یعنی " سانپ کھانے والا جانور"۔ ویسے یہ ایک چرندہ ہے اور سانپ نہیں کھا سکتا۔ اس کی وجہ تسمیہ شاید اس کے بَل دار سینگوں کی سانپ سے مشابہت ہو سکتی ہے یا اس جانور کا سانپوں کو مارنا۔ مقامی لوک کہانیوں کے مطابق مارخور سانپ کو مار کر اس کو چبا جاتا ہے اور اس جگالی کے نتیجے میں اس کے منہ سے جھاگ نکلتی ہے جو نیچے گر کر خشک اور سخت ہو جاتی ہے۔ لوگ یہ خشک جھاگ ڈھونڈتے ہیں اور اس کو سانپ کے کاٹنے کے علاج میں استعمال کرتے ہیں۔
مارخور کا قد زمین سے کندھوں تک 65 تا 115 سینٹی میٹر، لمبائی 132 تا 186 سینٹی میٹر اور وزن 32 تا 110 کلوگرام تک ہوتا ہے۔ مارخور کا رنگ سیاہی مائل بھورا ہوتا ہے اور ٹانگوں کے نچلے حصے پر سفید و سیاہ بال ہوتے ہیں۔ نر مارخور کی تھوڑی، گردن، سینے اور نچلی ٹانگوں پر مادہ کے مقابلے زیادہ لمبے بال ہوتے ہیں۔ مادہ کا رنگ سرخی مائل ہوتا ہے، جسم اور تھوڑی کے بال چھوٹے ہوتے ہیں جبکہ گردن پر بال نہیں ہوتے۔ نر اور مادہ دونوں کے سینگ بَل دار ہوتے ہیں، جو سر کے قریب بالکل ساتھ ساتھ جبکہ اوپر کی طرف بڑھتے ہوئے الگ ہو جاتے ہیں۔ نر کے سینگ 160 سینٹی میٹر اور مادہ کے سینگ 25 سینٹی میٹر تک ہو سکتے ہیں۔ مارخور کے جسم کی بُو عام گھریلو بکرے کے مقابلے میں بہت تیز ہوتی ہے۔
مارخور پہاڑی جانور ہے اور 600 سے 3600 میٹر تک کی بلندی پر پایا جا سکتا ہے۔ یہ عام طور پر شاہ بلوط، صنوبر اور دفران کے جھاڑ زدہ جنگلوں میں رہتے ہیں۔ مارخور دن میں چرنے پھرنے والا جانور ہے اور زیادہ تر صبح سویرے یا سہ پہر کے وقت نظر آتا ہے۔ ان کی خوراک موسم کے ساتھ تبدیل ہوتی ہے۔ موسم گرما اور بہار میں یہ گھاس چرتے ہیں جبکہ سردیوں میں درختوں کے پتے کھاتے ہیں۔ جوڑے بنانے کا عمل سردیوں میں ہوتا ہے اور نر ایک دوسرے کے سینگوں میں سینگ پھنسا کے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ مادہ کا حمل 135 سے 170 دن تک ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ایک یا دو (کبھی کبھار تین) میمنے پیدا ہوتے ہیں۔ مارخور ریوڑ کی شکل میں رہتے ہیں جس کی تعداد 9 تک ہوتی ہے۔ ریوڑ میں بالغ مادائیں اور ان کے بچے شامل ہوتے ہیں۔ بالغ نر عموماً اکیلے رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی آوازیں بکری سے ملتی جلتی ہوتی ہیں۔ موسم سرما کے اوائل میں نر اور مادہ ایک ساتھ کھلے گھاس کے میدانوں میں پائے جاتے ہیں، جبکہ گرمیوں میں نر جنگلوں میں ہی رہتے ہیں اور مادائیں پتھریلی چٹانوں پہ چڑھ جاتی ہیں۔
اب تک مارخور کی تین اقسام عالمی طور پر تسلیم کی جاتی ہیں۔
کچھ مصنفین نے مارخور کو عام گھریلو بکرے کے اجداد کی صف میں شامل کیا ہے۔ چارلس ڈارون کے مطابق موجودہ بکرا مارخور اور پہاڑی بکروں کی آپس میں افزائشِ نسل کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ بعض مصنفین نے، سینگوں میں مشابہت کی وجہ سے، مارخور کو چند مصری بکروں کی نسل کا بانی قرار دیا ہے۔ لداخ اور تبت میں موجود "پشمینہ بکری" بھی مارخور کے خاندان میں تصور کی جاتی ہے۔ سسلی میں پائی جانے والی " گِرگنٹانہ بکری" (Girgentana goat ) اور آئرلینڈ کی "بِلبری بکری" کے بارے میں بھی یہی گمان کیا جاتا ہے۔
برطانوی راج کے دنوں میں مارخور کو مشکل ترین شکار کا جانور تصور کیا جاتا تھا کیونکہ یہ دشوار گزار راستوں اور پہاڑی سلسلوں میں پائے جاتے تھے۔ اگرچہ افغانستان میں ان کا شکار غیر قانونی ہے لیکن نورستان اور لغمان کے علاقوں میں ان کا شکار روایتی طور پر کیا جاتا رہا ہے اور موجودہ افغان جنگ کے دور میں اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ بھارت میں پاکستانی سرحد کے قریب اب بھی ان کا شکار کیا جاتا ہے۔ تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان میں مارخور کا شکار خوراک کے علاوہ ان کے سینگوں کی وجہ سے بھی کیا جاتا ہے جنہیں مختلف دیسی ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ مارخور کو ٹیکساس کے علاقے میں نجی شکار گاہوں میں رکھنے کے لیے بھی استعمال کیا جانے لگا ہے۔
قدرت اور قدرتی وسائل کے تحفظ کی عالمی تنظیم بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ قدرت کے مطابق مارخور کو ایسے جانوروں کی صف میں شمار کیا جاتا ہے جن کا وجود خطرے میں ہے۔ یعنی اگر ان کی حفاظت کے لیے مناسب اقدامات نہ کیے گئے تو مستقبل قریب میں یہ نسل کرہ ارض سے ہمیشہ کے لیے نایاب ہو سکتی ہے۔ کھلے جنگل میں ان کی کل تعداد دو ہزار سے چار ہزار کے درمیان ہے۔
مارخور کو پاکستان کا قومی جانور ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس کے علاوہ مارخور ان 72 جانوروں میں شامل ہے جن کی تصاویر عالمی تنظیم برائے جنگلی حیات (WWF) کے 1976 میں جاری کردہ خصوصی سکہ جات کے مجموعے میں ہیں۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.