تحریک ریشمی رومال
From Wikipedia, the free encyclopedia
1914ء میں عالمی جنگ چھڑ جانے کے بعد محمودحسن دیوبندینے محسوس کیا کہ وقت قریب آگیاہے کہ ہندوستان کی آزادی کے لیے جنگ شروع کی جا سکتی ہے۔شیخ الہند نے محسوس کرلیاتھا کہ ہندوستانی عوام اور مشرقِ وسطی کے ممالک خصوصاًافغانستان،ایران اور خلافت عثمانیہ کو متحد کیے بغیر برطانوی حکومت سے ایشیا کو آزاد نہیں کرایا جا سکتا ہے۔ اس وقت خلافت عثمانیہ مشرقی وسطی کے وقار کی محافظ سمجھی جاتی تھی اور ترکی ہی برطانیہ،اٹلی ،فرانس،یونان اور روس کے مقابلہ میں ڈٹا ہوا تھا؛ اس لیے آپ نے حضرت مولا نا عبید اللہ سندھی کو افغانستان جانے کا حکم دیا اورخود حجاز و خلافت عثمانیہ کا سفر کیا۔
![]() | اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
1915ء میں شیخ الہند نے سندھی کو کابل جانے کا حکم دیا؛ مگر انھیں کوئی مفصل پروگرام نہیں دیا ۔ سی آئی ڈی کو غفلت میں ڈال کر شیخ عبد الرحیم سندھی کے ساتھ کوئٹہ ہوتے ہوئے افغانستان کے لیے روانہ ہو گئے ۔ شیخ عبد الرحیم سندھی جنھوں نے اسلام کی حقانیت سے متاثر ہوکر اسلام قبول کر لیا یہ بھی حضرت شیخ الہند کی تحریک کے معتمد تھے۔ عبید اللہ سندھی کو افغانستان جانے کے لیے ان کی بیوی اور بیٹیوں نے اپنے زیورات فروخت کرکے زاد راہ کی فراہمی کی تھی۔ روانگی کے وقت شیخ عبد الرحیم کو ئٹہ تک گئے اور وہاں جاکر روپئے سپر د کرکے واپس لوٹ آئے۔ گرفتاری سے بچنے کے لیے مولانا سندھی بلوچستان کے ریگستان اور سنسان پہاڑی راستوں اور دروں سے ہوتے ہوئے 15اگست 1915ء کو افغانستان کی سرحد میں داخل ہوئے ۔ اس وقت سورج غروب ہورہا تھا ۔ افغانستان کی آزاد سرزمین پر انھوں نے پہلی مغرب کی نماز ادا کی۔ اور حسنِ اتفاق یہی 15 اگست ہندوستان کی آزادی کی تاریخ ہوئی۔
عبید اللہ سندھی تحریر کرتے ہیں: ”1915ء میں شیخ الہند کے حکم سے کابل گیا، مجھے کوئی مفصل پروگرام نہیں بتایاگیا تھا؛ اس لیے میری طبیعت اس ہجرت کو پسندنہیں کرتی تھی؛لیکن تعمیلِ حکم کے لیے جانا ضروری تھا۔خدانے اپنے فضل سے نکلنے کا راستہ صاف کر دیا اور میں افغانستان پہنچ گیا۔روانگی کے وقت دہلی کی سیاسی جماعت کو میں نے بتلایا کہ میرا کابل جانا طے ہو چکا ہے، انھوں نے بھی مجھے اپنا نمائندہ بنایا؛ مگر کوئی معقول پروگرام وہ بھی نہ بتاسکے۔کابل جاکر مجھے معلوم ہوا کہ حضرت شیخ الہند قدس سرہ جس جماعت کے نمائندہ تھے، اس کی پچاس سال کی محنتوں کا حاصل میرے سامنے غیر منظم شکل میں تعمیلِ حکم کے لیے تیار ہے۔ان کو میرے جیسے ایک خادمِ شیخ الہند کی اشد ضرورت تھی۔اب مجھے اس ہجرت اور شیخ الہند کے اس انتخاب پر فخر محسوس ہونے لگا۔میں سات سال تک حکومتِ کابل کی شرکت میں اپنا ہندوستانی کام کرتارہا۔ 1919ء میں امیرحبیب اللہ خاں نے ہندوؤں سے مل کر کام کرنے کا حکم دیا، اس کی تعمیل میرے لیے فقط ایک ہی صورت میں ممکن تھی کہ میں انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہوجاؤں اس وقت سے میں کانگریس کا داعی بن گیا۔ 1922ء میں امیر امان اللہ خاں کے دور میں میں نے کانگریس کمیٹی کابل بنائی، جس کا الحاق ڈاکٹر انصاری کی کوششوں سے کانگریس کے گیا سیشن نے منظورکر لیا۔برٹش ایمپائر سے باہر یہ پہلی کانگریس کمیٹی ہے اور میں اس پر فخر محسوس کرسکتا ہوں کہ میں اس کا پہلا پریسیڈنٹ ہوں۔ افغانستان کے جس علاقہ میں مولانا سندھی داخل ہوئے اس علاقہ کو ”سوریایک“ کہا جاتا ہے۔ حضرت مولانا وہاں سے قندھار پہنچے۔ وہاں سے کابل پہنچے۔ ان کے سفر کا مقصد تھا افغانستان کو ہندوستان کی تحریکِ آزادی میں اخلاقی اور فوجی امداد دینے کے لیے تیار کرانا۔ مولانا اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے کوشش کرتے رہے ۔ اس سلسلہ میں حکومت کے ذمہ داروں سے رابطہ قائم کیا اوران کی مدد سے امیر حبیب اللہ تک رسائی حاصل کی۔ اور اپنے مقصد سفر کے سلسلہ میں ایک عرض داشت پیش کی، جس میں افغانستان کو ہندوستان کی آزادی کے لیے امداد دینے کی درخواست تھی۔ ”مولانا سندھی کے کابل پہنچنے سے پہلے پنجاب اورسرحد کے انگریزی کالج کے طلبہ کا ایک وفد بھی کابل پہنچ چکا تھا ۔ جہاں ان کو نظر بند کر دیا گیا تھا۔ طلبہ کے اس وفد کا مقصد تھا خلافت عثمانیہ کی فوج میں شامل ہوکر انگریزوں سے لڑنا ۔ ان طلبہ کو مولانا سندھی نے کابل پہنچنے کے بعد رہا کرایا تھا۔ مولانا سندھی نے ان مہاجر طلبہ کو اپنے حلقہ میں شامل کر لیا۔ ان کو مشورہ دیا کہ وہ ترکی فوج میں شامل ہونے کا ارادہ ترک کر دیں۔ اورافغانستان ہی میں رہ کر ہندوستان کی آزادی کے لیے کام کریں؛ چنانچہ وہ طلبہ تیار ہو گئے۔ اوران کے ساتھ مل کر مولانا سندھی نے ایک عارضی حکومت قائم کی ۔ اس عارضی حکومت کے تین رکن تھے۔ راجا مہندر سنگھ،مولانا برکت اللہ بھوپالی اور مولانا عبیداللہ سندھی۔ اس عارضی حکومت نے مختلف ممالک میں اپنے وفود روانہ کرکے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی کوشش کی ۔ اسی سلسلہ میں مارچ 1916ء کو ایک وفد روس بھیجا گیا ،اس کے بعد دووفود کو ترکی اور جاپان کے لیے روانہ کیا گیا۔ ترکی جانے والے وفد میں عبد الباری اور شجاع اللہ اور جاپان جانے والے وفد میں شیخ عبد القادر اور ڈاکٹر متھرا سنگھ شامل تھے ۔ جاپان جانے والے وفد کوگرفتار کرکے روسی حکام نے برطانیہ کے حوالے کر دیا۔ اور بد قسمتی سے ترکی جانے والا وفد بھی برطانوی حکام کے قبضہ میں آگیا۔ ان کے بیانات سے سارے واقعات انگریزوں کے علم میں آگئے۔ حکومتِ برطانیہ نے حکومتِ افغانستان سے احتجاج کیا، جس کے دباؤ میں آکر حکومتِ افعانستان نے مولوی محمد علی اور شیخ ابراہیم کو ہندوستان جانے کا حکم دے دیا۔ یہ دونوں حبیبیہ کالج کے پرنسپل اور پروفیسر تھے۔“
- مولانا عبیداللہ سندھی نے ان حالات سے حضرت شیخ الہند کو مطلع کرنا ضروری سمجھا اور ریشمی کپڑے کے تین ٹکڑوں پر خط لکھ کر 9 جولائی 1916ء کو عبد الحق کو دیا اور اس کو ہدایت کردی کہ یہ خطوط شیخ عبد الرحیم سندھی کو پہچا دیں ”ریشمی رومال“ کے اس خط کو ”ریشمی رومال تحریک “ یا”ریشمی خطوط تحریک“ کہتے ہیں۔
یہ خطوط کیسے ہاتھ لگے؛ اس سلسلہ میں ریشمی خطوط سازش کیس میں آفیسران کی تحریر ملاحظہ ہو: 14 اگست کو ملتان کے خان بہادر رب نواز خاں نے ملتان ڈویزن کے کمشنر کو زرد ریشمی کپڑے کے تین ٹکڑے دکھا ئے جن پر خوش خط اردو لکھی تھی۔انھوں نے بیان کیا کہ یہ 4 اگست سے ان کے پاس تھے؛ لیکن کمشنر کی عدم موجود گی کے باعث پیش نہیں کیے جاسکے۔ خان بہادر نے بتاکہ انھیں یہ خطوط عبد الحق سے ملے ہیں، جو پہلے ان کے لڑکوں کا اتالیق تھا اور 1915ء میں ان کے ہمراہ کابل گیا تھا۔ عبد الحق نے رب نواز خاں کو یہ خطوط پیش کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ان خطوط کو پہنچا نے کے لیے ہی اس کوکابل سے بھیجا گیا ہے۔جو حیدرآباد سندھ میں عبد الرحیم کو دیے جانے تھے؛ تاکہ وہ ان خطوط کو مدینہ روانہ کر دے۔عبد الحق کو عبدلرحیم سے ان خطوط کی رسیدلینی تھی اور اس رسید کو واپس کابل لے جانا تھا۔ کمشنر ملتان نے اس خط کے بعض حصے پڑھواکر سنے اور انھیں بچوں کی سی حماقت قرار دیا؛ تاہم ان خطوط کو پنجاب سی آئی ڈی کے حوالہ کر دیا گیا، پنجاب سی آئی ڈی کے مسٹر ٹومکنس نے ان خطوط کا ترجمہ کرایا اور عبد الحق قاصد پر جر ح کرائی۔“ انگریز آفیسران خطوط کی تحریر کے سلسلہ میں لکھتے ہیں: ”ان خطوط کی تحریر بہت اچھی نہایت صاف اور پختہ ہے۔نہ تو کوئی لفظ کھرچ کر صاف کیا گیا ہے، نہ کہیں کچھ مٹا یا گیا ہے، نہ کسی لفظ کی اصلاح کی گئی ہے۔صرف ونحوکی صرف ایک نہایت معمولی غلطی پوری تحریر میں نظر آتی ہے۔خط کی زبان اگرچہ بعض مقامات پر مبہم ہے۔جیسا کہ بالعموم سازشی تحریروں میں ہوتی ہیں؛لیکن اچھے تعلیم یافتہ؛ بلکہ عالم شخص کی زبان ہے۔“ مولانا عبیداللہ سندھی نے جوریشمی رومال پر خطوط لکھے تھے ’تاریخی اور سیاسی اعتبار سے وہ خطوط نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں سے پہلا خط شیخ عبد الرحیم سندھی کے نام تھا۔ یہ خط 6 انچ لمبے اور 5 انچ چوڑے ٹکڑوں پرلکھا گیا تھا۔ دوسرا خط حضرت شیخ الہند کے نام تھا۔ یہ خط دس انچ لمبے اور آٹھ انچ چوڑے کپڑے کے ٹکڑے پر لکھا گیا تھا ۔ تیسرا خط 15انچ لمبے اور دس انچ چوڑے ٹکڑے پر لکھا گیا تھا یہ خط شیخ الہند کے نام تھا۔ ریشمی خطوط سازش کیس میں ان خطوط کے سلسلہ میں تفصیل درج ہے، وہ یہ ہے: ”یہ خطوط زرد رنگ کے ریشمی کپڑے کے تین ٹکڑوں پر ہیں، ان میں پہلا خط شیخ عبد الرحیم صاحب کے نام ہے۔یہ ٹکڑا چھ انچ لمبا اور پانچ انچ چوڑا ہے۔دوسرا خط مولانا کے نام ہے یہ دس انچ لمبا اور آٹھ انچ چوڑا ہے۔تیسرا خط بظاہر پہلے خط ہی کے تسلسل میں ہے۔پندرہ انچ لمبا اور دس انچ چوڑا ہے۔ پہلے اور تیسرے خطوط پر ”عبیداللہ“دستخط ہیں۔عبد الحق نے ہمیں بتایاہے کہ مولوی عبیداللہ نے اس کو یہ تینوں ریشمی رومال دیے ہیں۔جن پر اس کی موجود گی میں مولوی عبیداللہ نے خطوط لکھے تھے۔ اس میں شبہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ عبیداللہ نے خود ہی یہ خط لکھے تھے۔ عبیداللہ نام کے دستخط عبیداللہ کے ان دستخطوں سے پوری مطابقت رکھتے ہیں۔ جو یہاں ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔