بحر اوقیانوس
دوسرا بڑا سمندر From Wikipedia, the free encyclopedia
دوسرا بڑا سمندر From Wikipedia, the free encyclopedia
بحر اوقیانوس، بحرظلمات یا بحرِ اوقیانوسِ اطلس دوسرا بڑا سمندر ہے جو سطح زمین کے 5/1 حصے کو گھیرے ہوئے ہے۔ اس کا انگریزی نام اٹلانٹک اوشن (Atlantic Ocean) یونانی لوک کہانیوں سے لیا گیا ہے۔ اٹلانٹک کا مطلب "اطلس کا بیٹا" ہے۔ یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ دراصل عربی میں، --- اوقیانوس --- Ocean یا بحر ہی کو کہا جاتا ہے، لیکن اردو میں عموما اوقیانوس سے مراد Atlantic Ocean لی جانے لگی ہے لہذا یہاں "بحر اوقیانوس" کو Atlantic Ocean کے متبادل کے طور استعمال کیا گیا ہے۔ اور عربی میں بھی اگر اس کی اصل الکلمہ تلاش کی جائے تو تانے بانے ایک یونانی لفظ Okeanos تک لے جاتے ہیں جس سے عربی کا اوقیانوس ماخوذ ہے اور پھر Okeanos کی ماخوذیت بذات خود ایک اسطورہ (دیومالائی داستان یا افسانے) تک جاتی ہے کہ جہاں د گا ئیا (Gaia) اور دیوتا یورنس (Uranus) کی جفت گیری سے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام Oceanus تھا۔
بحر اوقیانوسAtlantic Ocean | |
---|---|
متناسقات | 0°N 25°W[1] |
طاس ممالک | List of countries، ports |
سطحی رقبہ | 106,460,000 کلومیٹر2 (1.1459×1015 فٹ مربع)[2][3] شمالی اوقیانوس: 41,490,000 کلومیٹر2 (4.466×1014 فٹ مربع)، جنوبی اوقیانوس 40,270,000 کلومیٹر2 (4.335×1014 فٹ مربع)[4] |
اوسط گہرائی | 3,646 میٹر (11,962 فٹ)[4] |
زیادہ سے زیادہ گہرائی | 8,486 میٹر (27,841 فٹ)[4] |
حجم آب | 305,811,900 کلومیٹر3 (1.079965×1019 cu ft)[4] |
ساحل کی لمبائی1 | 111,866 کلومیٹر (367,014,000 فٹ) including marginal seas[1] |
1 Shore length is not a well-defined measure. |
اس بحر کا حوض انگریزی کے حرف S کی شکل میں شمالا جنوبا لمبائی میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کو استوا مخالف رو قریبا 8 درجے شمالی عرض بلد پر شمالی اوقیانوس اور جنوبی اوقیانوس میں تقسیم کرتی ہے۔ اس کو مغرب میں شمالی و جنوبی امریکا اور مشرق میں یورپ و افریقہ نے گھیرا ہوا ہے۔ یہ بحر شمال میں بحر منجمد شمالی اور جنوب میں آبنائے ڈریک کے ذریعہ بحر الکاہل سے ملا ہوا ہے۔ بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے درمیان میں ایک مصنوعی رابطہ نہر پانامہ کے ذریعے قائم کیا گیا ہے۔ مشرق میں بحر اوقیانوس اور بحر ہند کو تقسیم کرنے والا خط 20 درجے مشرقی نصف النہار ہے جو کیپ اگلہاس سے انٹارکٹکا تک ہے۔ بحر اوقیانوس کو بحر منجمد شمالی سے ایک خط علاحدہ کرتا ہے جو گرین لینڈ سے شمال مغربی آئس لینڈ اور پھر شمال مشرقی آئس لینڈ سے سپٹسبرگن کی انتہائی جنوبی نوک تک اور پھر شمالی ناروے میں شمالی کیپ تک جاتا ہے۔
بحر اوقیانوس زمین کے قریبا 20٪ حصے کو گھیرے ہوئے ہے اور پھیلاؤ میں صرف بحر الکاہل سے چھوٹا ہے۔ اپنے ملحقہ سمندروں سمیت اس کا رقبہ تقریباً 106400000 مربع کلومیٹر (41100000 مربع میل) اور ان سمندروں کے بغیر اس کا رقبہ تقریباً 82400000 مربع کلومیٹر (31800000 مربع میل) ہے۔ ملحقہ سمندروں کے ساتھ اس کا حجم 354700000 مکعب کلومیٹر (85100000 مکعب میل) اور ان کے بغیر اس کا حجم 323600000 مکعب کلومیٹر (77640000 مکعب کلومیٹر) ہے۔
بحر اوقیانوس کی اوسط گہرائی ملحقہ سمندروں سمیت 3332 میٹر (10932 فٹ) اور ان کے بغیر اوسط گہرائی 3926 میٹر (12881 فٹ) ہے۔ اس کی سب سے زیادہ گہرائی پورٹو ریکو گھاٹی میں ہے جہا ں اس کی گہرائی 8605 میٹر (28232 فٹ) ہے۔ بحر اوقیانوس کی چوڑائی متغیر ہے۔ اس کی کم سے کم چوڑائی برازیل اور لائیبیریا کے درمیان میں 2848 کلومیٹر (1770 میل) اور زیادہ سے زیادہ سے چوڑائی ریاستہائے متحدہ امریکا اور شمالی افریقہ کے درمیان میں 4830 کلومیٹر (3000 میل) ہے۔
بحر اوقیانوس کا ساحل کٹا پھٹا ہے اور بہت سی کھاڑیوں، خلیجوں اور سمندروں میں پھیلا ہوا ہے جن میں بحیرۂ کیریبین، خلیج میکسیکو، خلیج سینٹ لارنس، بحیرۂ روم، بحیرۂ اسود، بحیرۂ شمال، بحیرۂ لیبریڈور اور بحیرۂ نارویجن-گرین لینڈ شامل ہیں۔ بحر اوقیانوس میں موجود جزائر میں جزائر فارو، گرین لینڈ، آئس لینڈ، راکال، جزائر برطانیہ، آئر لینڈ، فرنینڈو ڈی نورونہا، ازورز، جزائر میڈیرا، کانریز، کیپ وردے، ساؤ ٹامے اور پرنسیپی، نیوفاؤنڈ لینڈ، برمودا، ویسٹ انڈیز، اسینشن، سینٹ ہیلینا، ٹرینڈاڈ، مارٹن واز، ٹرسٹن ڈا کنہا، جزائر فاک لینڈ، جزیرۂ جنوبی جارجیا شامل ہیں۔
ثقافتی اہمیت: ماورائے اوقیانوس کا سفر امریکا میں مغربی تہذیب کے فروغ کا باعث بنا ہے، اس کے علاوہ شمالی امریکا اور یورپ کے مابین بحرِ اوقیا نوس کے لیے The Pond (تالاب) کی اصطلاح ثقافتی اور جغرافیائی صورت اختیار کر گئی ہے، چنانچہ اکثر امریکی، یورپ خصوصاً اہلِ برطانیہ کے لیے "across The pond"(تالاب پار) کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔
بحر اوقیانوس کے پیندے کی سب سے اہم خصوصیت وسط اوقیانوسی ارتفاع کا آبدوز پہاڑی سلسلہ ہے۔ یہ شمال میں آئس لینڈ سے قریبا 58 درجے جنوبی عرض بلد تک پھیلا ہوا ہے اور زیادہ سے زیادہ 1600 کلومیٹر (1000 میل) کی چوڑائی تک پہنچتا ہے۔ ایک عظیم شگافی وادی بھی اس ارتفاع کے بیشتر حصے کے ساتھ پھیلی ہوئی ہے۔ اس ارتفاع پر پانی کی گہرائی بہت سی جگہوں پر 2700 میٹر (8900 فٹ) سے کم ہے جبکہ بہت سی چوٹیاں پانی سے باہر نکلی ہوئی ہیں جن سے جزائر وجود میں آتے ہیں۔ جنوبی بحر اوقیانوس میں ایک اور ارتفاع بھی ہے جو والوس ارتفاع کہلاتا ہے۔
وسط اوقیانوسی ارتفاع بحر اوقیانوس کو دو عظیم نشیبوں میں تقسیم کرتا ہے جن کی گہرائی کی اوسط 3700 سے 5000 میٹر (12000 سے 18000 فٹ) کے درمیان میں ہے۔ براعظموں اور وسط اوقیانوسی ارتفاع کے درمیان میں پھیلے ہوئے ترچھے ارتفاع بحر اوقیانوس کے پیندے کو بہت سے حوضوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ شمالی اوقیانوس کے چند بڑے حوضوں میں گیانا، جنوبی امریکا، کیپ وردے، کانریز شامل ہیں۔ جنوبی اوقیانوس کے چند عظیم ترین حوض انگولا، کیپ، ارجنٹینا اور برازیل کے حوض ہیں۔
گہرے بحر کے فرش کو کافی ہموار سمجھا جاتا ہے گوکہ اس میں بہت سی پہاڑیاں بھی موجود ہیں۔ فرش بحر میں بہت سی گہرائیاں اور گھاٹیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ شمالی اوقیانوس میں پورٹو ریکو گھاٹی سب سے گہری ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ گہرائی8,605 میٹر(28,232 فٹ)ریکا رڈ کی گئی ہے۔ اوقیانوس کی دوسری گہری ترین گھاٹی ساﺅتھ سینڈوچ ٹرنچ(South Sandwich Trench)ہے، جنو بی اوقیانوس میں واقع یہ گھاٹی 8,428 میٹر(27,651 فٹ)گہری ہے، اس عظیم سمندر کی تیسری گہری ترین گھاٹی رومانچے ٹرنچ(Romanche Trench)ہے، خط ِاستواکے نزدیک واقع اس گھاٹی کی گہرائی 7,454 میٹر(24,455فٹ)بیان کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ کینیڈا کے مشرقی ساحل پر زیرِآب 6,000میٹر گہری وادی کا بھی پتہ چلا ہے، سینٹ لارنس(Saint Lawrence )سے منسوب اس وادی کولورینٹن ابیز(Laurentian Abyss ) کا نام دیا گیا ہے۔
بحری گاد خاکزاد، بحرنشین اور معدن البحر مواد پر مشتمل ہے۔ خاکزاد مواد ریت، کیچڑ اور چٹانوں کے ذرات پر مشتمل ہے جو زمینی کٹاؤ، موسمی اثر اور آتش فشانی عمل کی وجہ سے زمین سے بہہ کر سمندر میں چلا جاتا ہے۔ یہ مواد زیادہ تر ساحلی ڈھلوانوں پر پایا جاتا ہے اور اس کی تہ دریاؤں کے دہانوں اور صحرائی ساحلوں پر سب سے موٹی ہوتی ہے۔ بحرنشین مواد ان مردہ حیوانات و نباتات کے بقایاجات پر مشتمل ہوتا ہے جو مر کر تہ میں چلے جاتے ہیں۔ اس مواد کی موٹائی 60 سے 3000 میٹر (200 سے 11000 فٹ) تک ہوتی ہے۔ معدن البحر مواد منگنزی گرہوں (manganese nodules) جیسے اجزاء پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ مواد وہاں ہوتا جہاں گاد کے اکٹھا ہونے کا عمل سست ہوتا ہے یا اسے بحری رویں اکٹھا کرتی ہیں۔
کھلے بحر کی سطح کے پانی کا بلحاظ کمیت نمکیاتی تناسب 33 سے 37 فی ہزار حصص ہے اور عرض بلد اور موسم کی مطابق بدلتا رہتا ہے۔ گو کہ کم سے کم نمکیاتی تناسب خط استوا کے بالکل شمال میں پایا گیا ہے لیکن یہ تناسب عمومی طور پر اونچے عرض بلد اور ساحلوں کے قریب اس جگہ سب سے کم ہوتا ہے جہاں دریا آ کر سمندر میں ملتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ نمکیاتی تناسب 25 درجے شمالی عرض بلد پر ہوتا ہے۔ سطح کے نمکیاتی تناسب پر تبخیر، ترسیب، دریائی آمد اور سمندری برف کے پگھلاؤ جیسے عناصر اثرانداز ہوتے ہیں۔
سطح آب کے درجات حرارت عرض بلد، رووں کے نظام اور موسم کے لحاظ سے تبدیل ہوتا رہتا ہے اور شمسی توانائی کی شمالا جنوبا تقسیم کو واضح کرتے ہیں۔ یہ درجات حرارت 2 − درجے سے کم سے 29 درجے سینٹی گریڈ (28 درجے فارن ہائیٹ سے 84 درجے فارن ہائیٹ) تک ہوتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ درجات حرارت خط استوا کے شمال میں اور کم سے کم قطبی علاقوں میں ہوتے ہیں۔ درمیانی عرض بلد کے علاقوں میں زیادہ سے زیادہ درجات حرارت کی مقداریں متغیر ہیں اور 7 درجے سینٹی گریڈ سے 8 درجے سینٹی گریڈ (13 درجے فارن ہائیٹ سے 15 درجے فارن ہائیٹ) تک ہوتی ہیں۔
بحر اوقیانوس پانی کے چار بڑے ذخائر پر مشتمل ہے۔ شمالی اور جنوبی اوقیانوس کے مرکزی پانی سطحی پانیوں پر مشتمل ہیں۔ زیر اوقیانوسی وسطی پانی 1000 میٹر (3300 فٹ) کی گہرائی تک جاتا ہے۔ شمالی اوقیانوسی گہرا پانی 4000 میٹر (13200 فٹ) تک کی گہرائی تک جاتا ہے۔
شمالی اوقیانوس کے اندر پانی کے ذخیرے کا ایک لمبا جسم بحری رووں نے علاحدہ کر دیا ہے۔ پانی کا یہ ذخیرہ بحیرۂ سرگاسو کہلاتا ہے، جس میں نمکیاتی تناسب واضح طور پر زیادہ ہے۔ بحیرۂ سرگاسو میں سمندری گھاس بڑی مقدار میں موجود ہے اور یورپی مارماہی کی ایک اہم جائے تخم ریزی ہے۔
کوریولس اثر (Coriolis effect) کے باعث شمالی اوقیانوس میں پانی کی حرکت گھڑیال موافق (clockwise) سمت میں گردش کرتا ہے جبکہ جنوبی اوقیانوس میں پانی کی گردش گھڑیال مخالف ہوتی ہے۔ بحراوقیانوس کی جنوبی موجیں نصف یومی ہوتی ہیں یعنی ہر 24 قمری گھنٹوں دو اونچی موجیں آتی ہیں۔ موجیں ایک عام لہرہوتی ہیں جو جنوب سے شمال کی طرف حرکت کرتی ہے۔ 40 درجے شمال سے اونچے عرض بلد پر کچھ شرقا غربا تغیر وقوف بھی عمل میں آتے ہیں۔
بحر اوقیانوس اور اس سے ملحق زمینی علاقوں کے موسم پر سطح آب اور بحری رووں کے درجۂ حرارت کے علاوہ پانیوں کے آرپار چلنے والی ہوائیں بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔ چونکہ بحر میں بڑی مقدار میں گرمی کو اپنے اندر محفوظ رکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے اس لیے ساحلی علاقے مموسمیاتی تغیرات کی انتہا سے محفوظ رہتے ہیں۔ ساحلی علاقوں کے موسم کے اعداد و شمار اور ہوا کے درجۂ حرارت کے پانی کے درجۂ حرارت سے فرق سے بارش کی مقدار کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ بحار فضائی نمی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ یہ نمی عمل تبخیر سے پیدا ہوتی ہے۔ موسمی منطقے عرض بلد کے لحاظ سے تبدیل ہوتے ہیں۔ گرم ترین موسمی منطقہ بحر اوقیانوس پر خط استوا کے شمال میں پھیلا ہوا ہے۔ سرد ترین منطقے اونچے عرض بلد میں ہیں، ان میں سرد ترین علاقے وہ ہیں جو سمندری برف سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ بحری رویں سرد اور گرم پانیوں دوسرے علاقوں تک منتقل کر کے وہاں کے موسم پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ ملحقہ زمینی علاقے ان ہواؤں سے متاثر ہوتے ہیں جو ان رووں کے اوپر چلتی ہیں۔ مثال کے طور پر خلیجی دھارا (Gulf Stream) نامی ایک بحری رو جزائر برطانیہ اور شمال مغربی یورپ کی فظا کو گرم کرتی ہے اور سرد پانی رویں شمال مشرقی کینیڈا (گرینڈ بینکس کے علاقوں میں) اور شمال مغربی افریقہ کے ساحلوں پر گہری دھند کا باعث بنتی ہیں۔
سمندری طوفان شمالی بحر اوقیانوس کے جنوبی حصے میں کیپ وردے اور جزائر ونڈورڈ کی درمیان میں بنتے ہیں اور مغرب کی جانب بحیرۂ کیریبین تک جاتے ہیں اور بعض صورتوں میں شمالی امریکا کے مشرقی ساحل سے جا ٹکراتے ہیں اور کافی تباہی پھیلاتے ہیں۔ یہ طوفان مئی اور دسمبر کے درمیان میں بنتے ہیں لیکن بیشتر طوفان آخر جولائی سے اوائل نومبر تک آتے ہیں۔ شمالی بحر اوقیانوس میں طوفان شمالی سردی کی وجہ سے بہت عام ہیں جس وجہ سے اس عبور کرنا کافی مشکل اور خطرناک ہوتا ہے۔
بحرمنجمد جنوبی کے بعد بحر اوقیانوس شمالی دوسرا کم عمر بحر ہے۔ تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ بحر اوقیانوس آج سے 18 کروڑ سال پہلے موجود نہیں تھا۔ اس وقت سمندری فرش کے پھیلاؤ سے عظیم براعظم پینجیا (Pangaea) کے ٹوٹنے سے بننے والے براعظم ایک دوسرے سے دور ہٹ رہے تھے۔ بحر اوقیانوس کے ساحلی علاقوں کے آباد ہونے کے بعد سے اس کی بہت زیادہ سیاحت کی گئی ہے۔ اس کے مشور سیاحوں میں وائیکنگ، پرتگالی اور کرسٹوفر کولمبس شامل ہیں۔ کولمبس کے بعد یورپی سیاحت میں بہت تیزی سے اضافہ ہوا اور بہت سے نئے تجارتی راستے قائم کیے گئے۔ نتیجتا بحر اوقیانوس یورپ اور امریکی براعظموں کے درمیان میں ایک اہم شاہراہ بن گیا اور ابھی تک اس یہ اہمیت برقرار ہے۔ اس بحر میں بہت سی سائنسی تحقیقات بھی کی گئیں ہیں۔ جرمن شہابی مہم، جامع کولمبیا کی لیمانٹ ارضیاتی رصدگاہ اور ریاستہائے متحدہ بحری فوج کا ہائیڈروگرافک آفس قابل ذکر ہیں۔
اس بحر نے ارد گرد کے مملک کی ترقی اور اقتصادیات میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ "ماورائے اوقیانوس" (transatlantic) آمد و رفت اور سفری راستوں کے علاوہ اس کی ساحلی ڈھلوان میں رسوبی چٹانوں پائے جانے والے معدنی تیل اور دنیا مچھلی کے عظیم ترین ذرائع کی وجہ سے بھی بحر اوقیانوس کی وجہ سے بھی اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اس سے پکڑی جانے والی مچھلیوں کی اہم اقسام میں کاڈ، ہیڈاک، ہیک، ہیرنگ اور میکرل شامل ہیں۔ مچھلی کی سب سے زیادہ پیداوار والے علاقوں نیوفاؤنڈلینڈ کے گرینڈ بینکس، نوواسکاشیا کا ساحلی ڈھلوان کا علاقہ، کیپ کاڈ کے پاس جارجز بینک، بہاما بینکس، آئسلینڈ کے ارد کرد کے پانی، بحیرۂ آئرش، بحیرہ شمال کا ڈاگر بینک اور فاک لینڈ بینکس شامل ہیں۔ مارماہی، جھینگے اور وہیل بھی بڑی تعداد میں پکڑے گئے ہیں۔ یہ تمام عناثر بحر اوقیانوس کی تجارتی اہمیت کو بہت بڑھا دیتے ہیں۔ تیل بہنے، سمندری ملبے اور سمندر کے کنارے زہریلے کچرے کی خاکستری کی وجہ بحر اوقیانوس کو لاحق ماحولیاتی خطرات کی چند اقسام کو کسی حد تک کم کرنے کے لیے بہت سے بین الاقوامی معاہدے کیے گئے ہیں۔
بحر اوقیانوس سے منسوب چند اہم تاریخی واقعات یہ ہیں :
بحیرۂ لیبریڈور، آبنائے ڈنمارک اور بحیرۂ بالٹک کی سطح اکتوبر سے جون تک سمندری برف سے ڈھکی رہتی ہے۔ شمالی اوقیانوس میں گرم پانی کی گردش گھڑیال موافق گردش ہوتی ہے اور جنوبی اوقیانوس میں گرم پانی کی گردش گھڑیال مخالف ہوتی ہے۔ بحری فرش سب سے نمایاں خصوصیت وسط اوقیانوسی ارتفاع پھیلی ہے جو اوقیانوس کے پیندے پر شمال سے جنوب تک ایک منحنی لکیر کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ اس ارتفاع کو چیلینجر مہم نے دریافت کیا تھا۔
تیل اور گیس کے ذخائر، مچھلی، سمندری پستانیہ جانور (سگ ماہی اور وہیل)، ریت اور بجری کے ذخائر، پلیسر کے ذخائر، کثیردھاتی گ رہیں، قیمتی پتھر
آبنائے ڈیوس، آبنائے ڈنمارک اور شمال مغربی اوقیانوس میں فروری سے اگست تک برفانی تودے عام ہیں۔ یہ تودے جنوب کی جانب برمودا اور جزائر میڈیرا تک پائے گئے ہیں۔ انتہائی شمالی اوقیانوس میں اکتوبر سے مئی تک بحری جہازوں کے عرشے پر برف جم جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ مئی سے ستمبر تک مسلسل رہنے والی سمندری کہر اور خط استوا کے شمال میں مئی سے دسمبر تک آنے والے سمندری طوفان ایک بڑا خطرہ ہیں۔
برمودا مثلث کے بارے مشہور ہے کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں بہت سے ہوائی اور بحری حادثے ہوئے جن کی وجوہ بظاہر ناقابل فہم اور پراسرار تھیں لیکن ساحلی محافظوں کی دستاویزات ان دعووں کی تائید نہیں کرتیں۔
خطرات سے دوچار جانوروں میں مینیٹی، سگ ماہی، سمندری شیر، کچھوے اور وہیل شامل ہیں۔ جال سے مچھلی پکڑنے سے ڈولفن، قطرس اور بہت سے دوسرے آبی پرندوں کی نسلیں ختم ہو رہی اور سمندر میں مچھلیوں کی تعداد میں تیزی سے کمی آ رہی ہے، جس بہت سے بین الاقوامی تنازعات پیدا ہو رہے ہیں۔ مشرقی ریاستہائے متحدہ، جنوبی برازیل اور مشرقی ارجنٹینا کے ساحلوں کو شہری کیچڑ نے آلودہ کر دیا ہے جبکہ بحیرۂ کیریبین، خلیج میکسیکو، جھیل میراکیبو، بحیرۂ روم اور بحیرۂ شمال میں تیل کی آلودگی ہے۔ اس کے علاوہ بحیرۂ بالٹک، بحیرۂ روم اور بحیرۂ شمال کو صنعتی فضلہ اور شہری پانی آلودہ کر رہا ہے۔
بحر اوقیانوس کی بڑی حفاظتی چوکیاں (چیک پوائنٹ) آبنائے جبل الطارق (جبرالٹر) اور نہر پانامہ ہیں ؛ آبنائے ڈوور، فلوریڈا کے آبنائے اور گزرگاہ مونا، اورسنڈ اور گزرگاہ ونڈورڈ حربی اہمیت کے حامل ہیں۔ سرد جنگ کے دوران میں نام نہاد شگاف گرین لینڈ-آئسلینڈ-متحدہ سلطنت حربی لحاظ سے ایک بڑا باعث فکر تھا اس لیے اس علاقے کے سمندر کی تہ میں ہائیڈروفون کا بہت بڑا نظام نصب کیا گیا تاکہ سوویت آبدوز جہازوں کا سراغ لگایا جا سکے۔
Seamless Wikipedia browsing. On steroids.
Every time you click a link to Wikipedia, Wiktionary or Wikiquote in your browser's search results, it will show the modern Wikiwand interface.
Wikiwand extension is a five stars, simple, with minimum permission required to keep your browsing private, safe and transparent.