بابری مسجد کا انہدام
بھارت میں مذہبی فسادات 1992ء / From Wikipedia, the free encyclopedia
بھارتی ریاست اترپردیش کے شہر ایودھیا میں 6 دسمبر 1992ء کو ہندو کار سیوکوں کے ایک گروہ نے سولہویں صدی میں تعمیر شدہ بابری مسجد کو منہدم کر دیا۔ یہ سانحہ ایودھیا میں منعقد سیاسی جلسے کے بعد پیش آیا جب جلسے نے پرتشدد رخ اختیار کر لیا۔
بابری مسجد کا انہدام | |
---|---|
مقام | ایودھیا، بھارت |
تاریخ | 6 دسمبر 1992ء |
نشانہ | بابری مسجد |
حملے کی قسم | فتنہ و فساد |
ہلاکتیں | 2،000 (فسادات میں)[1] |
مرتکبین | وشو ہندو پریشد کے کار سیوک |
ہندو دیومالا میں ایودھیا شہر کو رام کی جائے پیدائش مانا جاتا ہے۔ سولہویں صدی میں مغل سالار میر باقی نے یہاں ایک مسجد تعمیر کرائی تھی جسے بابری مسجد کہا جاتا تھا۔ تاہم مسجد کے مقام کو بعض ہندو رام جنم بھومی مانتے ہیں یعنی ان کے بھگوان رام کی پیدائش اس جگہ پر ہوئی تھی۔ 1980ء کی دہائی میں وشو ہندو پریشد نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ذریعے ایک مہم چلائی جس کا مقصد یہ تھا کہ اس جگہ رام کے نام پر مندر تعمیر کرائی جائے۔ اس سلسلے میں کئی ریلیاں اور جلسے ہوئے جن میں رام رتھ یاترا اہمیت کی حامل ہے جس کی سربراہی ایل کے ایڈوانی نے کی تھی۔
6 دسمبر 1992ء کو وشو ہندو پریشد اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے ڈیڑھ لاکھ کار سیوکوں یعنی رضاکاروں کو ریلی کی خاطر جمع کیا۔ ریلی نے پرتشدد رخ اختیار کر لیا اور حفاظتی حصار کو توڑ کر مسجد کو منہدم کر دیا گیا۔ بعد کی تفتیش سے پتہ چلا کہ اس انہدام کی ذمہ داری 68 افراد پر عائد ہوتی ہے جن میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور وشو ہندو پریشد کے بہت سارے رہنما شامل تھے۔ تفتیش کے دوران میں کئی ماہ تک ہندو مسلم فسادات ہوتے رہے جن میں کم از کم 2،000 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔[1]