اصلاح نفس کا آئینہ حق
From Wikipedia, the free encyclopedia
روح القدس ابن عربی کی کتابوں میں ایک امتیازی حیثیت رکھتی ہے ؛ یہ آسان ہے، کیونکہ اس میں واقعات سے بات سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس میں تصوف کو معاشرتی پہلو سے جوڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں آپ نے اپنے دور میں موجود تصوف کی خرابیوں کی طرف نہ صرف اشارہ کیا ہے بلکہ اُن نام نہاد صوفیوں کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے جو دنیاوی یا نفسانی اغراض کے لیے تصوف کا لبادہ اوڑھے بیٹھے ہیں۔ پھر آج کل، بلکہ شروع سے ہی یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ معاشرے کا کوئی طبقہ – چاہے وہ صوفیا اور ان سے متعلق لوگ ہی کیوں نہ ہوں – کسی قاعدے کا پابند ہونا ہی نہیں چاہتا بلکہ زیادہ تر لوگ تو ایسی پابندیوں کو اپنے لیے باعث آزار سمجھتے ہیں۔ بیشک جنید بغدادی بھی حق بجانب تھے جب انھوں نے کہا “اب تصوف ایک جام، ایک گدی اور ایک چوغہ ہو گیا، اب تصوف ایک نعرہ ایک وجد اور ایک رسم ہو گیا۔ ” امام قشیری کا یہ قول بھی حق ہے : “ہمارے زمانے میں اہل طریقت کا صرف نشان ہی باقی رہ گیا ہے۔ طریقت میں کمزوری آ گئی، نہیں بلکہ طریقت در حقیقت مٹ گئی۔ ” اور شیخ اکبر بھی سچ کہتے ہیں کہ اہل سماع اور وجد نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے۔ یہ اس لیے کہ ان لوگوں کی ہمیشہ یہی کوشش رہی کہ لوگوں کو ایک قاعدے میں لایا جائے۔
سرورق طبع شدہ کتاب | |
مصنف | شیخ اکبر محی الدین محمد ابن العربی |
---|---|
اصل عنوان | روح القدس فی مناصحة النفس |
مترجم | اردو: ابرار احمد شاہی |
ملک | ![]() |
زبان | عربی |
موضوع | تصوف |
صنف | اسلامی تصوف |
ناشر | اردو:ابن العربی فاؤنڈیشن پاکستان، |